تمام عاشقان اعلی حضرت کو (104واں) عرس قادری رضوی کی ڈھیروں مبارک بادیاں پیش ہیں🌹💐.
اپنے اپنے پیر پر تو سب کو ناز ہے لیکن جس مرید پر پیر کو ناز ہے اسے امام احمد رضا کہتے ہیں.
عاشقان اعلی حضرت
طالب دعا:محمد نورجمال رضــوی دینـــاج پوری.
اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن مختصر حالاتِ زندگی ملاحظہ ہوں :-↓↓
اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہِ شمع رسالت ، مجَدِّد دین وملَّت، حضرت علَّامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری الشّاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف (ہند)کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے۔آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔پھر آپ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے نام کے ساتھ عبدالمصطفیٰ کا اضافہ فرمایا ، جب آپ دستخط کرتے تو’’ عبدالمصطفیٰ احمدرضا‘‘ لکھا کرتے ۔ایک نعتیہ غزل کے مقطع میں لکھتے ہیں.
خوف نہ رکھ ذرا رضاتُوتو ہے عبدمصطفیٰ;
تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے.
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تَعَالٰی علیہ نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مُروَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِ ماجد رئیسُ المُتَکَلِّمِین مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ المنّان سے کرکے سَنَدِفراغت حاصل کرلی۔ اُسی دن آپ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا فتویٰ تحریر فرمایا تھا۔ فتویٰ صحیح پا کر آپ کے والدِ ماجد نے مَسندِ اِفتاء آپ کے سپرد کردی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔
عاشقان اعلی حضرت
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالی علیہ ۱۲۹۴ھ، 1877ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رحمتہ اللہ تَعالٰی عَلیہ کے ہمراہ حضرتِ شاہ آلِ رسول رحمتہ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں مارہرہ مطہرہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے-اس پر کسی نے حضرت شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت سراپااقدس میں عرض کی : ’’حضور! آپ کے یہاں تو ایک لمبے عرصے تک مجاہدات وریاضات کے بعد خلافت واجازت مرحمت کی جاتی ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں (یعنی مولانا نقی علی خان اور اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالٰی علیہما )کو بیعت کرتے ہی خلافت عطا فرمادی ؟‘
اِرشاد فرمایا : ’’اورلوگ زنگ آلود میلاکچیلا دل لے کر آتے ہیں ، اس کی صفائی وپاکیزگی کے لئے مجاہداتِ طویلہ اور ریاضات شاقہ کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ دونوں حضرات صاف ستھرا دل لے کر ہمارے پاس آئے ان کو صرف اِتصالِ نسبت کی ضرورت تھی اور وہ مُرید ہوتے ہی حاصل ہوگئی ۔‘‘
اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ رحمتہ اللہ تعالی علیہ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ تَعالٰی علیہ نے کم و بیش پچاس عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابل قدر کتب تصنیف فرمائیں ۔ آپ رحمتہ اللہ تَعالٰی عَلیہ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علم توقیت، “عِلم۔ تَو۔ قِیْ ۔ ت ” میں اِس قَدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملالیتے۔ وقت بِالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک مِنٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔
(شرح شجرہ شریف)
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں”
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں”
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
دعاؤں کا طالب:-محمد نورجمال رضوی مقیم حال اجمیرشریف