تقریر کی شرطیں کیا ہر کوئی تقریر کر سکتا ہے؟
مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
تقریر کی شرطیں
واعظ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان ہو۔
دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ سننا حرام اور دانستہ انہیں واعظ بنانا کفر علمائے حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ: من شک فی کفرہ وعذابه فقد کفر، جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا۔ [الدرالمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۶]
اسی طرح تمام وہابیہ و غیر مقلدین فانّھم جمیعا اخوان الشیاطین، کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں۔ [حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مطبع اہلسنت وجماعت بریلی ص۹۴]
دوسری شرط سنی ہونا۔
غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے اگرچہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے۔ حدیث شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من وقر صاحب بدعة فقد اعان علٰی ھدم الاسلام، جس نے کسی بدمذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی۔ [کنزالعمال حدیث ۱۱۰۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱/ ۲۱۹]
تیسری شرط عالم ہونا۔ تقریر کی شرطیں
جاہل کو واعظ کہنا ناجائز ہے جیسا کہ ارشاد ہے: اتخذالناس رؤسا جھالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا، لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنالیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کئے تو آپ بھی گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کیا۔
[صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۰]
چوتھی شرط فاسق نہ ہونا۔
تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے:
لان فی تقدیمه للامامة تعظیمه وقد وجب علیهم اھانته شرعاً، کیونکہ اسے امامت کے لیے مقدم کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ شرعاً مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے۔
[تبیین الحقائق باب الامامۃ والحدث فی الصلوۃ المطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر ۱/ ۱۳۴]
اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح القعیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا۔ ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اُسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کردیا جائے کہ یہاں یہ حالت ہے۔ یہ تقریر کی شرطیں ہیں
وﷲ تعالٰی اعلم۔
[فتاوی رضویہ، ج٢٩، ص٧٠، ٧١، مسئلہ ١٤]