تغیرات زمانہ موعظت رب ہے سن لے

تغیرات زمانہ موعظت رب ہے سن لے
ہر تغیر سے آتی ہے صدا فأفھم فأفھم

میرے وطن عزیز بھارت کے کرسئ سیادت وقیادت پر براجمان قائدین و ذمہ داران سے میرایہ عریضہ ہے۔


کہ زمامِ سیادت وقیادت کو مضبوط چابک دستی سے پکڑو اور محبتوں کی ندیاں بہا دو۔تاکہ خطۂ سیادت وقیادت کے ہر گوشے ہر چپے عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔ تغیرات زمانہ کو مزید سمجھیں


اور آنے والی نسلیں تمہیں بھی عدل ومساوات کے ظفر اعظم حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کی طرح یاد رکھے اور عزت وتکریم کے تاج محل تمہارے قبروں کے سرانے شجرۂ ثمردار بن کر سایہ فگن رہے۔


اورسینۂ تاریخ میں تمہارے نام کے عقیدتوں کا روشن قطب منار جگمگا تے رہے اور تمہارے سروں پر کلاہ افتخار بلندئ برج ولال قلعہ کی طرح پرچمِ محافظ بن کر سدا لہراتے رہے۔


اور ہاں! یہ بات دھیان رہے کہ ہرگز سایۂ غرور وتکبر کو اپنے آنگنِ انصاف میں بھٹکنے نہ دینا ورنہ وادئ خسران میں دھکیل دیے جاؤگے۔


کیونکہ لفظِ تکبر یہ کبر سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہے جلانا جسے ہم اپنے مادر وطن ہندوستان میں ماچس یا دیا سلائی کہتے ہیں، اسی دیا سلائی کو لغتِ عرب میں کبریت کہتے ہیں۔


کبریت کے معنی جلانے کے آتا ہے لہذا ہوشیار باش کہ کہیں تم نے بھی کبریت کی عفریتی فریب میں آکر ان کی خاصیت اپنا لی تو پھر سن لو انجام تمہارا جل کر خاکستر ہونے والا ہے ۔

تغیرات زمانہ

اوربہت جلد خداۓ کائنات تمہاری رسّئ مہلت کو اپنے دست قدرت کے شکنجے میں کس نے والا ہے۔


اور تم تخت شاہی سے فرش گدائی کے نشیمن ہونے والے ہو کیونکہ امور کائنات میں تصرف وتکبر تو فقط خدا ۓ ستار وغفار، قھار وجبار ہی کے شایان شان ہے ۔اسی لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ


مر اورا رسد کبریاؤ منی کہ
ملکش قدیمست وذاتش غنی


یکے را بسر بر نہد تاج تخت
یکے را بخاک اندر آرد ز تخت


اللہ عزو جل ہی کو بڑائی اور خودی کا حق ہے کیونکہ اس کی سلطنت ادیم وقدیم ہے اور وہ ہر شئ سے بے نیاز ہے۔وہ اس قدر قادر مطلق ہے کہ وہ کسی کے سر پر تاج شاہی کا اعجاز رکھتا ہے اور کسی کو تخت شاہی سے اتار کر پیوند خاک کر دیتا ہے اور اس کی ساری شہرت وثروت عزت و دولت مٹی میں ملا کر رکھ دیتا ہے ۔


اے حکمرانوں یہ ذہن نشین کر لو کہ عوام کی خوش حالی وبد حالی کی خشت اول تم ہو یاد رکھو کہ عوام اس ملک کے جڑ ہیں اور تم اس ملک کے تناور درخت ہو ۔


اور اگر عوام اس ملکی درخت کے کلی ہیں تو تم اس ملک کے پھل اور پھول ہو ۔ یاد رکھو کہ درخت کے ہرے بھرے رہنے کا سبب جڑیں ہوتی ہیں اور اسے طرح کلیاں پھل و پھولوں کی سلامتی کا ضامن ہوا کرتی ہیں ۔


اگر عوام آپ کے سیاسی ذمہ داران میں کوتاہی و نا اہلی کے سبب بے روزگاری وپریشان حالی کے شکار اور تعلیمی ترقی سے کوسوں دور رہیں تو پھر ملک وملت کا انجام بد سے بد تر ہوتا جاۓ گا اس لیے شیخ سعدی لکھتے ہیں۔


فراخی دراں مرز وکشور مخواہ
کہ دلِ تنگ بینی رعیت ز شاہ


اس ملک و ریاست میں چین وسکون کا تصور نہ کر جہاں عوام و رعایہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پریشان ہو ۔


اور اسی طرح ملک میں زہریلے اشیاء جیسے شراب گانجے وغیر دیگر منشیات پر شدید پابندیاں عائد ہونی چاہیے تاکہ منشیات کی غلاظت سے ملک کے بزرگ و بچے سب محفوظ رہیں ۔


اور ترقی کی جانب بڑھیں۔کیونکہ منشیات کے عادی افراد جہاں بستے ہیں وہ جگہ ویران ہو کر رہ جاتی ہے جیسا کہ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

نہ دیدم کسے سر گراں ازشراب
مگر ہم خرابات دیدم خراب

میں کسی شراب سے مست انسان کو کامیاب نہیں دیکھا البتہ وہ ریاست اور شراب خانے ویران دیکھے جہاں منشیات کی فراوانی تھیں ۔


اسی طرح ملک کے قدیم اثاثے اور علامات و روایات بر قرار رکھنے چاہیے مثلاً سیاحت و بدنی ریاضت کے مقامات اسی طرح اسماء مواضع وشوارع برقرار رکھنے چاہیے کیونکہ اس سے ملکی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت اور شناخت تروتازہ رہتے ہیں ۔


اوراس میں یہ راز بھی مظمر ہے کہ اگلوں کے کارنامے کے ترانے گنگنانے سے پچھلے ہمارے ناموں کے قصیدے گائیں گے ۔اس لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

چوں خواہی کہ نامت بود در جہاں

مکن نامِ نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگاں نہاں

  اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا بھی نام روشن رہے تو پہلے بزرگوں کے کارنامے و نشانے کو نہ مٹاؤ ۔

محمد طلحہ حسین سعدی ثقافی

تغیراتِ زمانہ موعظت رب ہے سن لے
ہر تغیر سے آتی ہے صدا فأفھم فأفھم

میرے وطن عزیز بھارت کے کرسئ سیادت وقیادت پر براجمان قائدین و ذمہ داران سے میرایہ عریضہ ہے۔


کہ زمامِ سیادت وقیادت کو مضبوط چابک دستی سے پکڑو اور محبتوں کی ندیاں بہا دو۔تاکہ خطۂ سیادت وقیادت کے ہر گوشے ہر چپے عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔


اور آنے والی نسلیں تمہیں بھی عدل ومساوات کے ظفر اعظم حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کی طرح یاد رکھے اور عزت وتکریم کے تاج محل تمہارے قبروں کے سرانے شجرۂ ثمردار بن کر سایہ فگن رہے۔


اورسینۂ تاریخ میں تمہارے نام کے عقیدتوں کا روشن قطب منار جگمگا تے رہے اور تمہارے سروں پر کلاہ افتخار بلندئ برج ولال قلعہ کی طرح پرچمِ محافظ بن کر سدا لہراتے رہے۔


اور ہاں! یہ بات دھیان رہے کہ ہرگز سایۂ غرور وتکبر کو اپنے آنگنِ انصاف میں بھٹکنے نہ دینا ورنہ وادئ خسران میں دھکیل دیے جاؤگے۔


کیونکہ لفظِ تکبر یہ کبر سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہے جلانا جسے ہم اپنے مادر وطن ہندوستان میں ماچس یا دیا سلائی کہتے ہیں، اسی دیا سلائی کو لغتِ عرب میں کبریت کہتے ہیں۔


کبریت کے معنی جلانے کے آتا ہے لہذا ہوشیار باش کہ کہیں تم نے بھی کبریت کی عفریتی فریب میں آکر ان کی خاصیت اپنا لی تو پھر سن لو انجام تمہارا جل کر خاکستر ہونے والا ہے ۔


اوربہت جلد خداۓ کائنات تمہاری رسّئ مہلت کو اپنے دست قدرت کے شکنجے میں کس نے والا ہے۔


اور تم تخت شاہی سے فرش گدائی کے نشیمن ہونے والے ہو کیونکہ امور کائنات میں تصرف وتکبر تو فقط خدا ۓ ستار وغفار، قھار وجبار ہی کے شایان شان ہے ۔اسی لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ


مر اورا رسد کبریاؤ منی کہ
ملکش قدیمست وذاتش غنی


یکے را بسر بر نہد تاج تخت
یکے را بخاک اندر آرد ز تخت


اللہ عزو جل ہی کو بڑائی اور خودی کا حق ہے کیونکہ اس کی سلطنت ادیم وقدیم ہے اور وہ ہر شئ سے بے نیاز ہے۔وہ اس قدر قادر مطلق ہے کہ وہ کسی کے سر پر تاج شاہی کا اعجاز رکھتا ہے اور کسی کو تخت شاہی سے اتار کر پیوند خاک کر دیتا ہے اور اس کی ساری شہرت وثروت عزت و دولت مٹی میں ملا کر رکھ دیتا ہے ۔


اے حکمرانوں یہ ذہن نشین کر لو کہ عوام کی خوش حالی وبد حالی کی خشت اول تم ہو یاد رکھو کہ عوام اس ملک کے جڑ ہیں اور تم اس ملک کے تناور درخت ہو ۔


اور اگر عوام اس ملکی درخت کے کلی ہیں تو تم اس ملک کے پھل اور پھول ہو ۔ یاد رکھو کہ درخت کے ہرے بھرے رہنے کا سبب جڑیں ہوتی ہیں اور اسے طرح کلیاں پھل و پھولوں کی سلامتی کا ضامن ہوا کرتی ہیں ۔


اگر عوام آپ کے سیاسی ذمہ داران میں کوتاہی و نا اہلی کے سبب بے روزگاری وپریشان حالی کے شکار اور تعلیمی ترقی سے کوسوں دور رہیں تو پھر ملک وملت کا انجام بد سے بد تر ہوتا جاۓ گا اس لیے شیخ سعدی لکھتے ہیں۔


فراخی دراں مرز وکشور مخواہ
کہ دلِ تنگ بینی رعیت ز شاہ


اس ملک و ریاست میں چین وسکون کا تصور نہ کر جہاں عوام و رعایہ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پریشان ہو ۔


اور اسی طرح ملک میں زہریلے اشیاء جیسے شراب گانجے وغیر دیگر منشیات پر شدید پابندیاں عائد ہونی چاہیے تاکہ منشیات کی غلاظت سے ملک کے بزرگ و بچے سب محفوظ رہیں ۔


اور ترقی کی جانب بڑھیں۔کیونکہ منشیات کے عادی افراد جہاں بستے ہیں وہ جگہ ویران ہو کر رہ جاتی ہے جیسا کہ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

نہ دیدم کسے سر گراں ازشراب
مگر ہم خرابات دیدم خراب

میں کسی شراب سے مست انسان کو کامیاب نہیں دیکھا البتہ وہ ریاست اور شراب خانے ویران دیکھے جہاں منشیات کی فراوانی تھیں ۔


اسی طرح ملک کے قدیم اثاثے اور علامات و روایات بر قرار رکھنے چاہیے مثلاً سیاحت و بدنی ریاضت کے مقامات اسی طرح اسماء مواضع وشوارع برقرار رکھنے چاہیے کیونکہ اس سے ملکی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت اور شناخت تروتازہ رہتے ہیں ۔


اوراس میں یہ راز بھی مظمر ہے کہ اگلوں کے کارنامے کے ترانے گنگنانے سے پچھلے ہمارے ناموں کے قصیدے گائیں گے ۔اس لیے شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

چوں خواہی کہ نامت بود در جہاں

مکن نامِ نیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بزرگاں نہاں

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا بھی نام روشن رہے تو پہلے بزرگوں کے کارنامے و نشانے کو نہ مٹاؤ ۔ یہی ہے تغیرات زمانہ کا اہم پیغام

محمد طلحہ حسین سعدی ثقافی

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x