تعزیہ کی ابتدا اور اس کا بنانا دیکھنا منت مانگنا چڑھاوا دینا

حکم تعزیہ پر مکمل انمول تحریر تعزیہ کی ابتدا اور تعزیہ بنانا اور اس کا تماشہ دیکھنا اور بہت سارے لوگ اس پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں منت ماگتے ہیں یہ سب کا شرعی حکم تفصیل سے بیان کیا جائےگا

ہندوستان میں تعزیہ کی ابتدا؟

تعزیہ داری وغیرہ رسوم سے آٹھ سو سال تک ہندوستان بالکل پاک رہا۔ 801 ہجری میں تیمور لنگ ترکستان کا بادشاہ جو نسلاً تاتاری اور مذہبا ً شیعہ تھا، اس نے پہلے پہل اس رسم کو ایجاد کیا اور ہندوستان میں پہلا تعزیہ 962ہجری میں ہمایوں بادشاہ کی معرفت آیا۔ اس نے اپنے وزیر بیرم خان کو بھیج کر46 تولہ کا ایک زمردین تعزیہ منگوایا جہاں سے ہندوستان میں اس رسم کی ابتدا ہوتی ہے۔شریعت ِمحمدیہؐ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے یہ ہوئی تعزیہ کی ابتدا کی کہانی

تعزیہ بنانا کیسا؟

امام اہل سنت فرماتے ہیں: تعزیہ بنانا بدعت و نا جائز ہے۔

(رضویہ 24/،501)

تعزیہ کا تماشا دیکھنا؟

امام اہل سنت فرماتے ہیں: چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے۔

(ملفوظات286)

تعزیہ پر منت ماننا؟

امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ: تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے“

(رضویہ 24،/501)

تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا؟

امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ: تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(رضویہ 21/246)

محرم الحرام میں تعزیہ بنانے کا شرعی حکم.

مسئلہ 179 از بسولی ضلع بدایوں مرسلہ خلیل احمد صاحب 9 شوال ۱۳۱۹ ھ

کیا فرماتے ہیں علماۓ دین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ کا بنانا اور دیکھنا ان پر دل سے معتقد ہونا اہل سنت و جماعت کو چاہئے یا نہیں اور جو ایسا کرے اس پر بموجب شرع کیا حکم صادر ہوگا بینوا توجروا.

الجواب

تعزیہ رائجہ مجمع بدعات شنیعہ سیئہ ہے اس کا بنانا دیکھنا جائز نہیں اور تعظیم و عقیدت سخت حرام و اشد بدعت الله سبحانه و تعالی مسلمان بھائیوں کو راہ حق کی ہدایت فرماۓ آمین

و الله سبحانه و تعالي اعلم.

(العطايا النبوية في الفتاوي الرضوية. جلد 24.صفحہ 489)

عورتوں کا تعزیہ دیکھنے کے لئے گھر سے نکلنا۔

امام اہل سنت فرماتے ہیں: علم، تعزیے، مہندی، ان کی منت، گشت، چڑھاوا، ڈھول، تاشے، مجیرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا کو جانا، عورتوں کا تعزیے دیکھنے کو نکلنا، یہ سب باتیں حرام و گناہ و ناجائز و منع ہیں۔

(فتاوي رضوية ٢٤/٤٨٥)

تعزیہ حاجت روا سمجھنا

تعزیہ کو حاجت روا یعنی ذریعہ حاجت روا سمجھنا جہالت پر جہالت ہے اور اسے منت جاننا اور حماقت، اور نہ کرنے کو باعث نقصان خیال کرنا زنانہ وہم ہے مسلمان کو ایسی حرکات و خیال سے باز آنا چاہئے.

(رضویہ 24/485)

ملتان میں تعزیہ کی ابتدا😘

حضرت شاہ یوسف گردیزؒ کو اعزاء داری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔آپ 1088ء میں ملتان تشریف لائے ان کی آمد کے ساتھ ہی ملتان میں اعزاء داری تعزیہ کی ابتدا آغاز ہوا

شاہ یوسف گردیزؒ کی موجودہ امام بارگاہ سے متصل ایک گھر جو وڈٖا گھر کے نام سے معروف تھا اس میں یہ مجالس اعزاء برپا کی جاتی تھیں۔اسی طرح امام بارگاہ حضرت شاہ شمس سبز واریؒ بھی مجالس اور ماتم کا مرکز تصور ہوتا تھا اسے تقریباً 400سال قدیم بتایا جاتا ہے

ملتان میں حضرت شاہ شمس ؒکی آمد کے ساتھ ہی آستانہ خلیفہ واحد بخش المعروف ناصرہ آباد جھک اندرون پاک گیٹ کے بزرگ بھی تشریف لے آئے اور یہاں پر امام باڑہ کی بنیاد رکھی

ملتان میں ابتداًاعزاداری امام بارگاہوں تک محدود تھی۔دیوان ساون مل (1820ء) ملتان کا حکمران تھا اسکے زمانے میں مخدوم سیّد لعل شاہ ؒملتان تشریف لائے اور باقاعدہ تعزیہ داری کی بنیاد رکھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملتان میں پہلا باقاعدہ آستانہ پیر لعل شاہ موسوی المشہدی (جو حضرت شاہ عبدالطیف امام برّیؒ کے آخری سجادہ نشین تھے) نے تعمیر کروایا۔ اس کے بعد دوسرا بڑا نام گردیزی خاندان کے معروف زمیندار سیّد حامد گردیزی کا ہے جنہوں نے 1887ء میں باقاعدہ امام بارگاہ بنوائی

رفتہ رفتہ امام بارگاہوں سے یہ جلوسوں کی صورت میں باہر آنے لگے تو اس پر ہندوؤں میں بے چینی بڑھنے لگی

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ عاشورۂ محرم کے موقع پر ہندوؤں کی جانب سے تعزیہ کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ احتجاج کے طور پر تین دن تک زیارتیں سڑک پر پڑی رہیں۔ اس موقعہ پر شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ فریقین یعنی ہندو مسلم میں تناؤ بڑھنے لگا اور قریب تھا کہ فساد فی الارض پھیل جائے۔ ایسے میں دربارحضرت موسیٰ پاک شہید سے مخدوم صدر الدین گیلانی ؒ گھوڑے پر سوار نموادار ہوئے اور غصے سے کہا ’’ہونہہ‘‘۔! ان کا یہ کہنا تھا کہ دونوں فریق پسپا ہونے لگے

اس وقت سے یہ روایت بن گئی کہ دربارحضرت موسیٰ پاک شہید سے مخدوم صاحبان ہی استاد کے تعزیئے پر جاکر خصوصی دعا کرواتے ہیں اوریہ روایت آج بھی قائم ہے

اس کے بعد یہ تعزیہ جلوس کو لیڈ کرتا ہوا کارروان کو آگے لیکر بڑھتا ہے۔ اور اس کے بعد شاگرد کا تعزیہ، پھرمحلہ ماتم واہ سے واحد بخش المعروف فقیروں والا تعزیہ اور پھر یکے بعد دیگرے اٹھارہ تعزیئے پاک گیٹ چوک پہنچتے ہیں۔مذکورہ ہندو مسلم تناؤ کے بعد انگریز حکومت نے 1845ء میں تعزیوں کے باقاعدہ لائسنس اور ان کے روٹ کا تعین اور جلوس کے آغاز و اختتام کا وقت مقرر کر دیاتھا

جس پر آج تک عمل درآمد کیا جاتا ہے❤

میر احمد کامران مگسی

اللہ تعالٰی ان محرمات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x