تاج دار حرم، ہو نگاہ کرم کے متعلق بہت قابل غور تحریر جو ہر ایک کو مطالعہ کرنا ضروی ہے تاکہ تاج دار حرم سلام کے بارے اسلامی شرعی حکم کو سمجھ سکے اس کو پڑھنے سے پہلے کیوں کہ اس میں کچھ اشعار ایسے ہیں جن کا پڑھنا روا نہیں
کے عنوان سے ایک مشہور قوالی تھی جسے آج کل کے رسمی اور پاکستان کے نقال انڈین نعت خواں حضرات نے اچک لیا ہے اور کل کی قوالی اب نعت کے روپ میں بھی مذہبی اسٹیجوں پر بلا کسی رکاوٹ کے دھڑلے سے اسی دھن میں پڑھی جا رہی ہے
تاج دار حرم سلام
اگر
کسی قوالی کے اشعار میں نعتیہ احتیاط ہو اور شاعری کے بول آداب نعت کی پامالی نہ کرتے ہوں تو اس رسم پروری میں بھی زیادہ مضائقہ نہ سمجھا جائے
لیکن
دقت یہ ہے کہ اس طرح کی جاہل فن کارانہ نقالیاں کبھی کبھار مذہبی طور پر کفریات کی بھی حدیں پھلانگ دیتی ہیں اور انھیں ذرا تمیز نہیں رہتی
زیر
بحث قوالی میں ایسے بہترے مقامات ہیں، جب نہ صرف یہ کہ آداب نعت کی دھجیاں بکھرتی ہیں بلکہ نعت رسول کی سخت بے حرمتی بھی ہوتی ہے
تاج دار حرم سلام میں قابل غور باتیں
(الف) اس
کے ایک ابتدائی شعر میں غیر محتاط رسمی نعتیہ شاعری کے مزاج کے مطابق جنت سے یوں بے نیازی دکھائی گئی ہے:
جنت بھی گوارہ ہے مگر میرے لیے
اے کاتب تقدیر! مدینہ لکھ دے
لفظ
گوارہ نے خداوند قدوس کی عظیم ترین نعمت اور ہر بندہ مومن کی آخری منزل مقصود جنت کو جس طرح بے قدر کیا ہے، قطعاً مومنانہ مزاج نہیں ہو سکتا
سوال
یہ ہے کہ مدینہ شریف کے مادی حصول کے لیے روحانی جنت کب آڑے آتی ہے، جو اسے ہلکا گردانا جائے؟ تاج دار حرم سلام
کیا
یہ ٹھیک وہی دہلوی مزاج نہیں جس میں خدائے تعالیٰ کی عظمتیں ظاہر کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین روا گئی؟
پچھلے
کچھ وقت سے کم خواندہ یا غیر محتاط رسمی نعتیہ شاعری نے عظمت رسالت کے اظہار کے لیے غیر شعوری طور پر شان موسوی اور مقام جبریل -علیہما السلام- کے ساتھ بھی تقریباً یہی مذموم رویہ روا رکھا ہے، جس پر سخت ایکشن لیا جانا چاہیے
(ب) اس
قوالی کے دوسرے ایک شعر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے دزدیدہ نظر یعنی چور نگاہ لفظ کا استعمال ہوا ہے جو نہ اپنے معنیٰ کے اعتبار سے نعت ہو سکتا ہے اور نہ ہی معنویت کے لحاظ سے۔ پورا فارسی مصرع یوں ہے:
گاہے فگن دزدیدہ نظر
یعنی
یا رسول اللہ! علیک الصلاۃ والسلام کبھی کنکھیوں سے چوری چھپے یا اچکتی سی ہی سہی، ہم پر بھی نگاہ کرم ڈالیے۔
بے شک
محتاج کرم امتی کی طرف سے اپنے آقا کے حضور یہ استمدادی مراد درست ہے لیکن چوں کہ نعت میں موزوں/ نا مناسب الفاظ کا انتخاب ہی حکم رکھتا ہے، اس لیے مراد کی درستی کے باوجود اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ لفظ شان نبوت و رحمت کے منافی ہے تاج دار حرم سلام
کیوں کہ
چھپ چھپا کے لینا دینا اور کنکھیوں کی اوٹ سے نوازنا اس دربار بندہ پرور کی شان سماحت کو زیب نہیں دیتا
(ج) اس
کا سب سے برا جملہ جو ایمان لے ڈوبتا ہے اور جو شاید اس نظم کے اصل شاعر کا جملہ بھی نہ ہو بلکہ یوٹیوب کی جاہل سماعتوں کو محض سننے میں محسوس ہوا ہو، حضرت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے عرب کے کنور کی جگہ رب کے کنور کا بد ترین استعمال ہے۔
پورا
مصرع یہ ہے: اے رب کے کنور! تم جانت ہو من کی بتیاں۔
کنور (कुँवर)
سنسکرت لفظ ہے، جس کا مطلب راج کمار یعنی شہزادہ ہوتا ہے۔ اصطلاح میں یہ لفظ بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بطور تعظیم استعمال ہوتا آیا ہے
لیکن
ظاہر ہے رب کے کنور کا مطلب، اللہ رب العزت کی شان بے نیازی لم یلد و لم یولد کے اسلامی عقیدے کا گلا گھونٹنا ہے، جو نعت تو کہاں ہو، ایسا بولنے والے کا ایمان لے ڈوبے
بالکل
ویسے ہی جیسے اس وقت حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت کے طور پر ان کی کعبے میں پیدائش کو لے کر یہ انتہائی جری اور غیر محتاط مصرع زبان زد ہو رہا ہے:
لم یلد کے گھر ولد پیدا ہوا
جبکہ
رب کے کنور کی بجائے اصل جملہ عرب کے کنور میں بھی کچھ ایسا خاص تعظیمی پہلو نہیں جسے مقام رسالت کی مدح سرائی کہا جا سکے
بہر صورت
یہ جملہ شاعرانہ کوتاہ لفظی کی نشانی اور قادر الکلامی کے فقدان کی علامت ہے
یہ
محض ایک مشہور نظم کا تجزیہ ہے، ورنہ کیا ایرے غیرے محض شاعروں کے نعتیہ کلام اور کیا منقبتیں، اس وقت اس قسم کے غیر محتاط/ غیر معیاری اشعار کی بھرمار ہے
جو
یا تو کسی مشہور سنگر/ نعت خواں/ قوال کے پڑھنے کی وجہ سے رواج پا گئے یا اپنی لے اور دھن کی وجہ سے مقبول ہو گئے تاج دار حرم سلام
ہمیں
چاہیے کہ نعتوں کے لیے محض نغمگی، لذت سماعت، رسمی واہ وہی اور الفاظ کے ادھیڑ بن کا گمان پالنے سے کہیں زیادہ ناموس رسالت/ شان نبوت اور احترام محبوبیت کا خیال رکھیں
کیوں کہ
در اصل نازک مزاجی کی یہی نفس گم کردہ راہ، نعت ہے، ورنہ یہاں قدم قدم پر وہ خطرات ہیں جو یا تو شرک کا ایہام پیدا کر دیں، یا کفر کا الزام دھر دیں۔ تاج دار حرم سلام
خالد ایوب مصباحی شیرانی
18/ ستمبر 2022- اتوار