بیٹی کی پیدائش پر ماتم کیوں

لڑکی کی ولادت رحمت ھے زحمت نہیں یعنی کہ بیٹی کی پیدائش میں غم کیوں منائیں جب کہ خوشی کا حکم ہے یقیناً اولاد اللہ عز وجل کی عطا کر ده ایک نعمت ہے لڑکا ہو یہ لڑکی
اللہ کی اس عطا کر دھ چیز پر حیرانی و پریشانی کا اظہار کرنا لعن طعن کرنا عجیب طرح کی بات ھے
نا شکری ہے
جیسا کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جس کے وہاں لڑکی کی پیدائش ھوتی ہے تو اسکو برا بھلا کہا جاتا ہے طرح طرح کی باتیں ہوتیں ہیں کوئی کہتا ہے
داماد مبارک ہو! تو کوئی نوزائیدہ بچی کو مخاطب کرکے کہتا ہے ہمارا يا ہمارے بھائی کا گھر ملا تھا کیا؟؟؟؟

بیٹی کی پیدائش

یہ اس طرح کی باتیں دین اسلام سے دوری اور نعمت خداوندی سے بیزارگی کی نشانی ہے

محض لڑکی کی پیدائش سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جس طرح نیک لڑکا باعث رحمت ہے اسی طرح نیک لڑکی بھی باعث رحمت اور نعمت خیر و برکت ہے

پیغمبر اسلام کی بعثت سے پہلے #عرب بیٹی کی پیدائش پر مایوسی کا اظہار کرتے تھے کسی کے یہاں لڑکی کی کا پیدا ہونا برا شگون مانا جاتا تھا سب کے سب لڑکیوں کی پیدائش سے نالاں و ترساں رہا کرتے تھے

جب #محسن انسانیت نے قرآن مقدس کا یہ اعلان عرب والوں کے سامنے سنایا کہ= قیامت کو بھول گئے جو ایسی حرکتیں کرتے ہو۔ اِس دن اُس زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے تمہارے سامنے پوچھا جائیگا کہ بتا تو کس گناہ میں قتل کی گئی تھی ؟؟؟؟
تو وہ لڑکی اپنے باپ کے خلاف ایک گواہی ہوگی ۔۔۔۔ تو اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں قانون اسلام کے جاری ہوتے ہی رفتہ رفۃ یہ پرانا دستور بھی مٹتا چلا گیا ۔
لوگ بیٹی کی پیدائش کو برا نہیں سمجھنے لگے

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کے نتیجہ میں #لڑکی کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جانے لگا ۔۔۔۔

لڑکی کی پیدائش پر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے

حدیث‌شریف حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس لڑکی ہو اور وہ اُس کو نہ زندہ دفن کرے اور نہ ہی اس کو برے حال میں پڑا رہنے دیا جائے اور نہ اپنے لڑکوں کو اس سے بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کریگا ۔۔۔

فی_زمانہ ایک سے زیادہ لڑکیوں والے اکثر سوچ میں پڑے رہتے ہیں #جہیز ایک نا قابل برداشت بوجھ انہیں ہمیشہ گہری سوچ و فکر میں ڈالے رہتا ہے۔۔۔۔

مروجہ جہیز کی بد ترین بدعت کا رواج عام ہو گیا ہے

قلیل آمدنی والے والدین اپنے گھروں میں #جوان بیٹیوں کو رکھ کر ٫٫نہ زندوں میں جمع ہیں نہ مروں میں ٫٫ والی بات کے مصداق ہو گئے ۔ اُن کی زندگیوں میں اُن سے دن کا چین چھین لیا گیا ہے اور را ت کی نیند حرام کر دی گئی ۔۔۔
اُن کو نہ تو کھانے کی مزا آتا ہے نہ پہننے میں ہر لمحہ انہیں اپنی لڑکیوں کی شادی رچانے کا خیال رہ رہ کر ستاتا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے گھناؤنے ماحول میں ایک باپ کی حالت کیسے سدھر سکتی ہے؟؟؟؟
اسی لیے لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اسکی پیدائش پر رنج وغم کا اظہار کیا جانے لگا۔۔۔
یہ مسلمانوں کی ایسی گھناؤنی حرکت ہے جو نہ صرف یہ کہ خلاف سنت ہے بلکہ خلافِ انسانیت بھی ہے ۔۔۔ معاشرہ میں جہیز کو بڑھانے والے ہم خود ہیں کیوں کہ ہم نے تعلیمات #پیغمبر اسلام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔۔۔۔
ہماری زندگیوں میں ایسے ایسے گھناؤنے اور خرافات رچ بس گئے ہیں کہ ہم نے ان کو اپنی زندگی کا ایک جز بنا لیا ہے۔۔۔ حقیقت میں یہ رسومات ایک مسلمان کی زندگی میں #کوڑھ کی حیثیت رکھتا ہے
جب تک ہم ان رسومات کو دور نہیں کرینگے ہماری زندگی میں خوشحالی نہیں آ سکتی اور نہ ہی ہمارا ایمان پنپ سکتا ہے
ایسی حالت میں سدھار کیسے آ سکتا ہے؟؟؟؟اصلاح تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر چلیں۔۔۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ہم لوگوں کو تعلیمات اسلامی پر سچے دل سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم

از۔۔۔۔ضیاءالمصطفے

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x