بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج جس کی کسی کو خبر نہیں

جلسہ اور ہمارا معاشرہ ،،، بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج

از قلم ۔۔شھاب الدین حنفی نیپال

فروغ دین کیلے کئ ذرائع ہیں ۔ مدراس۔ ومساجد، خانقاہ، ومجالس، ومحافل اعراس ،وجلسہ وغیرہاں ،مذکورہ تمام ذرائع اپنے اعتبار سے مفید ہے کسی بھی ذرائع کی افادیت سے انکار کی گنجائش نہیں ۔ تاہم عصر حاضر میں جس کثرت سے اعراس واجلاس ہورہے ہیں ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا جلسہ ہورہاہے عرس ہورہاہے اسی قدر عوام میں دینی بیداری پیدا ہوتی معاشرہ میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا بے نمازی نمازی بنتے ،دین سے دوری میں کمی واقع ہوتی مگر ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں ارہاہے بلکہ مزید معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی جاری ہے نوجوان نسل بے راہ روی کے شکار ہوتے جارہے ہیں مساجد میں وہی گنے چنے نمازیوں کی تعداد ہے مسلم معاشرے میں جگہ جگہ انتشار وافتراق کا بازار گرم ہے حصول علم سے دوری مزید بڑھتی جارہی ہے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوتا جارہاہے ، آخر اتنے جلسے اور اعراس ومحافل کے باوجود قوم مسلم دن بدن زوال پزیر کیوں ہوتی جارہی ہے ۔ اگر جلسوں اور عرسوں کا جائز لیا جاے اور اس پر ہونے والے اخرجات کا اندازہ کیا جاے تو صرف سال میں اہلسنت کے ہزاروں جلسے اور اعراس ہوتے ہیں ۔ اربوں کا خرچہ ہورہاہے پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج کو مزید دیکھیں ۔ہندونیپال میں ایک شب کے جلسہ میں کم از کم پانچ سے دس لاکھ کا خرچہ آتا ہے جس علاقے سے راقم السطور کا تعلق ہے نیپال کے صرف ان دواضلاع میں کم از کم عرس اور جلسہ کے نام پر کڑوروں کا صرفہ آتا ہے اتنا خرچہ آتا ہے جتنا سے پانچ سے دس مدارس پورے سال اپنی کفالت مکمل کرسکتا ہے اگر یوں کہا جاے کہ ان پیسوں سے پانچ یونیورسیٹی کھولا جاسکتا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ، جس سے قوم مسلم کو ترقی بھی ملےگی ۔نوجوان نسل اعلی تعلیم بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ مگر افسوس صد افسوس جلسوں اور عرسوں کے نام پر بہت بڑی رقم بہت بڑا سرمایہ ہم پانی میں بہا رہے ہیں نہ ہماری عوام سوچ رہی ہے نہ علماء اس جانب توجہ مبذول کرا رہے ہیں ۔ ابھی چند ماہ کیلے وطن مالوف جانا ہوا دوچار جلسوں میں شرکت ہوئ ان جلسوں کی حالت زار دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جلسوں کا مقصد اصلی تھا قوم کو علماء کی تقریر سنواکر راہ راست پر لانا ۔ مگر ہمارے جلسوں کا المیہ یہ ہیکہ بڑے سے بڑے خطیب کو اس وقت بلایا جاتا ہے جب جلسوں میں شریک سامعین آغوش نیند میں جاچکے ہوتے ہیں ۔ رات کے آخری پہرمیں خطیب کو بلایا جاتا ہے جبکہ اصل وقت نعت خوانی ،اور نقابت کے نذر ہو جاتی ہے ۔ اب آپ بھلا غور فرمائیں جو سامعین سننے کیلے آیے ہیں وہ حالت نیند میں کیا سنیں گے اور کیا سمجھیں گے ؟ میری تحریر کا مقصد نعت خوانوں کا ٹارگیٹ کرنا نہیں ہے نہ نقباء کو دل دکھانا مگر آپ سب اہل علم وفن واہل خرد خود ہی فیصلہ کریں خاصکر جلسہ اور عرس کرنے والے ایسا ہورہاہے یا نہیں؟ الاماشاءاللہ موجودہ اعراس وکانفرنسوں میں کئ شرعی خرابیاں بھی داخل ہوچکی ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اسی سبب سے عوام میں سدھار پیدا نہیں ہورہاہے معاشرے میں بہتری نہیں آرہی ہے ؟ چند خرابیاں جن کو جلسہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں بلکہ خود دیکھتے ہیں مگر افسوس اس پر وہ کنٹرول نہیں کر پاتے ہیں ۔

بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج

جلسوں اور عرسوں میں مخلوط شرکت

مستورات کیلے کوئ پردے کا معقول انتظام نہیں بس بیچ میں براے نام ایک باریک چادر ڈال دینا

مستورات کیلے عین اسٹیج سے متصل یا کچھ فاصلہ پر انتظام کردینا

نقیب کا زیادہ وقت لینا اور خطباء شعراء کیلے مبالغہ آرائ سے کام لینا جو بسااوقات جھوٹ پر مشتمل ہوتا ہے

نعت خوانوں کا گانوں کے طرز پر کلام پڑھنا چند اشعار کی جگہ ایک ہی شعر کا بار بار تکرار کرنا جبرا دادوتحسین کیلے عوام کو بلوانا

جلسہ اور عرسوں میں بازار لگوانا اسٹیجوں پر پان گٹکھا کھانا بار بار تھوکنا جو کہ ادب کے منافی ہے

جلسوں اور عرسوں میں اختلافی تقریر کرنا یا کروانا بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج میں اس کا رول زیادہ رہتا ہے

اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری شرعی خرابیاں جس کوبیان کرنے کیلے ایک دفتر چاہیے

خلاصہ کلام یہ ہیکہ موجودہ جلسوں اور عرسوں کی روش پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے

کم سے کم خرچوں میں جلسہ اور عرس ہوسکتا ہے مگر افسوس ہیکہ دس دس لاکھ بلکہ بعض جلسوں کا خرچہ تیس سے چالیس لاکھ تک آتا ہے اب ایسے جلسہ کرنے یا کروانے والوں کی کیا نیت ہوتی ہے یہ تو بہتر رب جانتا ہے مگر جلسہ سے پہلے یا جلسہ کے بعد جو ماحول نظر آتا ہے اس سے یہی کہا جاسکتا ہیکہ یہ سب نام و نمود سستی شہرت کیلے ہوتا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو کئ گاوں ایسے ہیں جہاں جلسہ سے پہلے یا جلسہ کے بعد اختلاف وانتشار ہوا ہے دوگروہ میں لوگ بٹ گیے ہیں اسلیے راقم السطور یہی کہے گا کہ جوپیسہ آپ جلسوں اور عرسوں پر خرچ کررہے ہیں تعلیمی میدان میں خرچ کریں یہ دور ان لوگوں کا ہے جو تعلیم یافتہ ہے بے پڑھا لکھا انسان مثل حیوان کے ہے یہ ایک الگ ٹاپک ہے اسلیے میں اپنے علماء فضلاء فقہاء دانشوران سے عرض کرونگا کہ آپ سب عوام کو تعلیمی بیداری کی طرف راغب کریں مدارس اسلامیہ کو مضبوط کریں عصری تعلیم سے نسل نو کو سنواریں تاکہ قوم مسلم زوال سے بچ سکیں ،،،،یہ بڑے جلسے کے بھیانک برے نتائج کو جان کر حیرانی ہوگی

شھاب الدین حنفی جلیشور مقیم حال الدولۃ السعودی نائب مہتمم جامعہ سیدہ فاطمہ للبنات جلیشور ضلع مہوتری نیپال

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x