بدعت، حقائق کے اُجالے میں اس تحریر کو پڑھ کر بدعت کی تعریف اقسام اور اس کی مکمل حقیقت کا علم ہوجائےگا
○سوال: بدعت کا لغوی معنی کیا ہے؟
●جواب: ’بدعت‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے ’کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا۔ چنانچہ عربی لغت کی مشہور کتاب ’المنجد‘ میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اخترعه وصنعه لا علی مثال‘ یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز بنانا اور ایجاد کرنا
بدعت کی تعریف شریعت میں
○سوال: شریعت کی زبان میں بدعت کسے کہتے ہیں ؟
●جواب: بدعست کی شرعی تعریف : شریعت میں بدعت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا، چنانچہ امام یحییٰ بن شرف نووی بدعت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’البدعة ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ ﷺ‘ بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جو عہد رسالت مآب ﷺ میں نہ ہو-
(نووی ،تہذیب الاسماء واللغت۔۳:۲۲۔)
کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں کہ: وہ کام جو حضور ﷺاور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے۔ حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم نے نہیں بیان کیا۔ اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نماز کی باضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایا کہ: یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ (“نعم البدعة هذه”)
اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا؟ کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے؟ یقینا ایسا نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں۔ صحیح وہی ہے جو اوپر امام نووی کے حوالے سے بیان کیا گیا۔ یہ بدعت کی تعریف سے معلوم ہوگیا
○سوال: کیا ہر بدعت برُی اور گمراہی ہوتی ہے؟
●جواب: نہیں، ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی، کیونکہ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو صحابئہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا، مگر بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق بہت سارے ایسے کام جو حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا صحابئہ کرام رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے کیا اور اسے اچھا بھی سمجھا، یہاں پر مختصراََ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں۔
▪مثال نمبر ۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تراویح کی نماز با قاعدہ رمضان المبارک میں ہر رات کو نہیں ہوتی تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے با قاعدہ تراویح کی جماعت قائم کی۔ اور جب یہ جماعت قائم ہو گئی تو آپ نے ارشاد فرمایاــ’’نعم البدعة ھٰذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔
(صحیح بخاری کتاب صلاۃالتراویح باب فضل من قام رمضان حدیث۱۹۰۶)
غور کریں! اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ کبھی استعمال نہ فرماتے مگر آپ نے ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی ۔ کیوں کہ بدعت کی تعریف سے معلوم نہیں ہوسکتا اس کی تفصیل جاننی پڑےگی
مثال نمبر ۲: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے زمانہء مبارک میں جمعہ کے دن صرف دو اذان ہوتی تھی۔ پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسری اذان (یعنی اقامت) نماز کے شروع ہونے سے پہلے ہوتی تھی۔ مگر جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا تو آپ نے بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق ایک ’’اذان‘‘ کا اضافہ کیا اور مقام ’’زورائ‘‘ پر دینے کا حکم دیا۔ اس طرح سے جمعہ کے دن بشمول ’’اقامت‘‘ کے تین اذانیں ہو گئیں
(صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ،باب الاذان یوم الجمعۃ، حدیث: ۹۱۲)
• سوچنے کی بات ہے۔ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ کام کیسے کرتے جو حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا ۔ مزید یہ کہ اس وقت کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین باحیات تھے کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ آپ ایک ایسا کام جو حضور ﷺ ،سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں نہ ہوا ۔ ايسے آپ نے کیوں کیا؟ بلکہ تمام صحابہ و تابعین نے اسے قبول کیا اور آج تک تمام مسلمانون کا اسی پر عمل ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں! کیا وہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام اور آج تک کے تمام مسلمان، اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گمراہ اور جہنمی ہیں؟ یا وہ جہنمی ہیں جو صحابہ اور عام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر اپنا الگ راستہ بناتا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کو جائے تو اُس کو ہم پھیر دیں گے، جدھر وہ پھرا۔ اور اُسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے پھرنے کی۔
(سورہ نسائ،آیت:۱۱۵)
مثال نمبر ۳: سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور کے حالات کے مد نظر جب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآن شریف باقاعدہ ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ’کیف نفعل شئیا لم یفعله رسول اللہ ﷺ ؟’ ہم کیسے وہ کام کریں جسے حضور ﷺ نے نہ کیا؟ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’ھذا واللہ خیر‘ قسم بخدا یہ بہت اچھا کام ہے۔
(صحیح بخاری ،کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن ،حدیث:۴۹۸۶)
مذکورہ بالا حدیث شریف کو دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک ایسے کام کے بارے میں جسے حضور ﷺ نے نہ کیا، قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ غلط نہیں بلکہ اچھا کام ہے اور صرف اچھا ہی نہیں بلکہ بہت اچھا کام ہے ۔مگر کچھ لوگ اپنی کم علمی کی بنیاد پر ہر بدعت کو گمراہی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی علم اور ہدایت نصیب فرمائے۔
○سوال: حدیث شریف میں ہے ’کل بدعة ضلالة و کل ضلالة فی النار‘ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ اس سے تو ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
●جواب: جی نہیں! اس حدیث شریف میں بدعت سے مراد ’بدعت سئیہ‘ ہے یعنی ’بری بدعت‘ اور اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہر وہ نیا کام جو دین کے خلاف ہو شریعت کے مزاج کے مخالف ہو وہ سب کے سب غلط اور گمراہی ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نیا کام چاہے وہ اچھا ہو یا برا سب کے سب غلط اور گمراہی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا تو مدرسے بنانا، مساجد کو مزین کرنا، قرآن حکیم پر اعراب لگانا، پورے رمضان المبارک میں تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا، جمعہ کے دن اذان اول دینا اور اس کے علاوہ بے شمار باتیں گمراہی ہوتیں۔ حالانکہ ایسا کوئی نہیں مانتا، لہذا معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعتیں گمراہی ہیں جو دین و شریعت کے مخالف ہیں۔
○سوال: کیا بدعت کا حسنہ (یعنی اچھی) اور سئیہ (یعنی بری) ہونا حدیث شریف سے ثابت ہے؟
●جواب: جی ہاں! بدعت کا اچھی اور بری ہونا حدیث شریف سے ثابت ہے۔ حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة فله اجرھا و اجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شئی و من سن سنة سیئة کان علیه وزرھا و وزر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی‘‘ جس نے اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رائج کیا تو اس کو اپنے رائج کرنے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس شخص نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا تو اس شخص کو اس کے رائج کر نے کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی۔
(صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقة،حدیث:۱۰۱۷)
• اس حدیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوگیا کہ نئے کام کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے اور حضور ﷺ نے دونوں کا حکم صاف صاف لفظوں میں بتا دیا ، اور اسی حدیث شریف کو مد نظر رکھتے ہوئے امام غزالی، امام نووی، امام بدرالدین عینی، علامہ ابن حجر عسقلانی، میر سید شریف جرجانی، علامہ ابن اثیر جزری، علامہ ابو اسحاق شاطبی، شیخ عبد الحق محدث دہلوی وغیرہ نے بدعت کی تقسیم کی۔ اور سب نے یہ تسلیم کیا کہ بعض بدعتیں اچھی ہوتیں ہیں اور بعض بری، تفصیل کے لئے مطالعہ کیجئے ’شرح صحیح مسلم ،مصنفہ علامہ غلام رسول سعیدی،جلد نمبر ۲،صفحہ ۵۳۹تا ۵۶۴)
ان تماتر حقیقتوں سے آنکھیں بند کر کے اگر کوئی صرف یہیں رٹتا رہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی (یعنی کوئی بھی نیا کام اچھا نہیں ہوتا) بلکہ سب غلط اور گمراہی ہے۔ تو یقینا ایسے شخص کو حضور ﷺ کے ارشادات، صحابہ کرام کے افکار و نظریات اور علمائے کرام کے اقوال سے کوئی مطلب نہیں