ایک مشت داڑھی رکھنا کہاں سے ثابت ہے؟ ایک اصل حقیقت

ایک مشت داڑھی رکھنا کہاں سے ثابت ہے؟👇
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎!
کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسٸلہ کے بارے میں کہ فقہ حنفی میں ایک مشت داڑھی رکھنا کہاں سے ثابت ہے؟
امام اعظم نے کس کتاب میں داڑھی شریف کو ایک مٹھی اور واجب لکھا ہے؟
ایک عالم دین جو کہ۔پاکستان سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ داڑھی رکھنا ضروری نہیں نہ ہی واجب و فرض ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن چھوٹی داڑھی کے قاٸل ہیں۔ اور یہ عالم دین کہتے ہیں کہ جس کی داڑھی نہ ہو جماعت کراسکتا ہے۔ اور چھوٹی داڑھی والا بھی امامت کرواسکتا ہے۔ اور ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ زانی شرابی بدکار ہر طرح کے کبیرہ گناہ والے کے پیچھے نماز ادا کرنا جاٸز ہے
کیا یہ عالم دین صحیح کہہ رہے ہیں؟

سائل:توصیف احمد خانیوال پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

ایک مشت داڑھی رکھنا

الجواب بعونه تعالى عزوجل
یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے داڑھی رکھنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پر مقدار لحیہ میں فقہاء متقدمین و متاختین کا اختلاف ہے ۔
آیا مشت بھر رکھنا واجب ہے یا سنت؟
اس بابت فقہ حنفی کی کتب میں مقدار لحیہ کچھ یوں وارد ہے جوفقہاء وجوب قبضہ کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے ۔
١/ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں۔
أَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا.
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔
(ترمذي، السنن، 5: 94، رقم: 2762، بيروت: دار احياء التراث العربي)

٢/ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔
(بخاري، الصحيح، 5: 2209، رقم: 5553، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

٣/ مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔
يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ.
وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘
(أبي داؤد، السنن، 2: 306، رقم: 2357، دار الفکر)

٤/ حضرت سماک بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں
کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی مبارک کاٹتے تھے۔
(ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25480، مکتبة الرشد الرياض)

٥/ حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔
(ابن أبي شيبة، المصنف، 5: 225، رقم: 25481)

واضح رہے ایک مشت داڑھی رکھنا کہ
ایک مشت سے کم ڈاڑھی رکھنا خلاف سنت ہے اور خلاف سنت صحابہ ہے ۔
مطلق ڈاڑھی رکھنا واجب ہے
اور قبضہ بھر رکھنا سنت ہے ۔۔
مصنف شرح صحیح مسلم مفسر قرآن غلام رسول سعیدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض علماء ڈاڑھی میں قبضہ کو واجب کہتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ وجوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امر سے ثابت ہوتا ہے اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ تک ڈاڑھی رکھنے کا امر فرمایا ہو۔ بعض علماء وجوب پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائما قبضہ تک ڈاڑھی رکھی اور کبھی اس کا ترک نہیں کیا اور یہ وجوب کی دلیل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ صرف دوام سے و جوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے اس فعل کے ترک پر انکار بھی فرمایا ہو جیسا کہ علامہ ابن نجیم نے فرمایا ہے اور علامہ ابن ھمام کی بھی یہی تحقیق ہے اور کسی حدیث میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے قبضہ سے کم ڈاڑھی رکھنے پر انکار فرمایا ہو نیز آپ وضوء میں ہمیشہ دائیں جانب سے ابتداء کرتے تھے اور یہ بالاتفاق واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ہمارا موقف یہ ہے کہ نفس ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈانا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ڈاڑھی منڈانے والے مجوسی پر انکار فرمایا
(المصنف ج ٨ ص ٣٧٩)

نیز ڈاڑھی رکھنا اسلام اور مسلمانوں کا شعار ہے البتہ قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں ہے لیکن ڈاڑھی کی اتنی مقدار رکھنا ضروری ہے جس پر عرف میں ڈاڑھی کا اطلاق آسکے کیونکہ احکام میں عرف کا اعتبار ہے
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنفیہ رحمت اللہ علیہ کا قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کی شرعا مقدار معین نہ ہو اس میں مبتلا بہ کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے۔
(رد المختار ج ١ ص ١٢٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

خشخشی ڈاڑھی یا فرنچ کٹ ڈاڑھی سے یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا یہ ایک فنی بحث ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ایک مشت داڑھی رکھنا ہے کہ لمبی اور دراز ڈاڑھی رکھی جائے جو سینہ کے بالائی حصہ کو بھر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی لمبی تھی جو سینہ مبارک کو بھر لیتی تھی۔
(تفسیر تبیان القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 116)

علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی حنفی فرماتے ہیں
أما اللحية فذکر محمد في الآثار عن الامام أن السنة أن يقطع مازاد علی قبضة يده.
امام محمد رحمہ اﷲ نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قبضہ سے زائد داڑھی کاٹنا سنت ہے۔
(الطحطاوي، حاشية علی مراقي الفلاح، 1: 342، مصر: المکتبة الکبری الأميرية ببولاق)
علامہ شامی فرماتے ہیں
وما وراء ذالک يجب هکذا عن رسول اﷲ أنه کان يأخذ من اللحية من طولها وعرضها.
قبضہ بھر سے زائد داڑھی کٹوانا واجب ہے، یونہی رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی داڑھی مبارک کو لمبائی وچوڑائی سے کم کیا کرتے تھے۔(ابن عابدين، رد المحتار، بيروت: دار الفکر)
فقہاء کرام مزید فرماتے ہیں
بقدر المسنون وهو القبضة
’داڑھی میں قدر مسنون قبضہ ہے۔
(مرغيناني، الهداية، 1: 126، بيروت: المکتبة لإسلامية
زيلعي، نصب الراية، 2: 457، مصر: دار الحديث
البحر الرائق، 2: 302، بيروت، دار المعرفة
الدر المختار، 2: 417، بيروت: دار الفکر)

حتی کہ فقہ حنفی کے معتمد فقیہ ملا علی قاری حنفی
شرح مسند ابو حنیفہ میں لکھتے ہیں ایک مشت داڑھی رکھنا
فالتقدير: لو أخذتم نواحي لحية طولا وعرضا، وترکتم قدر المستحب وهو مقدار القبضة، وهي الحد المتوسط بين الطرفين امذمومين من إرسالها مطلقاً، ومن حلقها وقصهاعلی وجه استئصالها.
(حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو جو داڑھی کاٹنے کا حکم دیا تھا) اس میں حکماً یہ ارشاد ہے کہ اگر تم داڑھی کو طولاً عرضاً اور اس قدر مستحب چھوڑ دو (تو بہتر ہے) اور وہ مستحب قبضہ کی مقدار ہے اور یہ مطلقاً داڑھی چھوڑنے یا منڈوانے اور جڑ سے کاٹنے کی افراط اور تفریط والی مذموم جانبوں میں حد متوسط ہے۔(ملا علي قاري، شرح مسند أبي حنيفة: 423، 424، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية)

٢/ داڑھی رکھنا فرض تو نہیں پر مطلاق داڑھی رکھنا واجب ہے کہ یہ شعار اسلام سے ہے ۔
٣/ اس بابت مفتی منیب صاحب کا قول میرے علم میں نہیں ہے غالبا وہ قبضہ بھر میں عدم وجوب کے قائل ہوں گے بصحت سوال ۔

٤/ داڑھی مونڈے زانی شرابی مرتکب گناہ کبیرہ کی اقتدار جائز نہیں ہے ۔
اگر کوئی مطلق جائز قرار دے وہ غلط ہے
البتہ جب کوئی امامت کےلائق نہیں تو سب الگ الگ پڑھیں ورنہ ساتھ پڑھنے کے بعد اعادہ واجب
داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، جو آدمی داڑھی منڈوا دیتا ہے وہ فاسق ہے اور جو
یکمشت سے پہلے ہی کٹوادیتا ہے شرعاً ایسا شخص تارک سنت ہے
پہلی صورت میں فاسق کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے؛ اس لیے نماز تو ادا ہوجائے گی یعنی فریضہ سر سے اتر جائے گا، لیکن کراہت تحریمی کے ساتھ․․․ ویحرم علی الرجل قطع لحیتہ (فتح القدیر)
اور دوسری صورت میں ترک سنت کے ساتھ نماز ہوجائے گی
واضح رہے کہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے مقدار لحیہ کے باب میں قبضہ کو واجب قرار دیا ہے فتاوی رضویہ میں ہے
ایک مشت یعنی چار انگلی تک رکھنا واجب ہے اس سے کمی ناجائز ۔ شرح مشکوۃ شریف میں ہے
داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہاجاتا ہے حالانکہ وہ واجب ہے۔
(اشعۃ اللمعات شرح المشکوۃ کتاب الطہارۃ باب السواک مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲ بحوالہ ج ٢٢ ص ١١٧ مكتبة المدينة)
اسی طرح مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
داڑھی بڑھانا سنن انبیاء سابقین سے ہے۔ مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے، ہاں ایک مشت سے زائد ہو جائے تو جتنی زیادہ ہے اس کو کٹواسکتے ہیں
(بہار شریعت ح 16ص 588 المکتبت الامدینہ )

پر فتاوی شامی میں ہے فردا فردا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ جماعت سے نماز پڑھیں اگرچہ وہ ثواب نہیں جو متقی کے پیچھے ہے پر نماز ہوجائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
وفي الدر المختار
صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة”
و في الشامية:
(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع”. (شامي ١/ ٥٦٢، ط: سعيد)

حدیث پاک میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الصَّلَةُ الْمَکْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے نیک ہو یا بد اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو۔
(أبو داؤد، السنن، 1: 162، رقم: 594، دارالفکر)
ایک اور روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْکُمْ مَعَ کُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلَةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ وَالصَّلَةُ وَاجِبَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے۔‘‘
(أبو داؤد، السنن، 3: 18، رقم: 2533)
امام علاءالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی حنفی فرماتے ہیں
کل عاقل مسلم حتی تجوز إمامة العبد والأعرابي والأعمی وولد الزنا والفاسق وهذا قول العامة.
ہر عقلمند مسلمان کی امامت صحیح ہے۔ یہاں تک کہ غلام، دیہاتی، نابینا، حرامی اور فاسق کی امامت بھی عام علماء کے نزدیک صحیح ہے۔‘‘
کأساني، بدائع الصنائع، 1: 156، بيروت: دار الکتاب العربي

امام بخاری رحمہ ﷲ نے نقل کیا ہے کہ محمد بن یوسف، اوزاعی، زُبَیری، حُمَید بن عبدالرحمن، عُبَید اﷲ بن عدی بن خیار سے روایت ہے۔
أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّکَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِکَ مَا نَرَی وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَائُوا فَاجْتَنِبْ إِسَائَتَهُمْ.
وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جب کہ وہ محصور تھے اور کہا کہ آپ مسلمانوں کے متفقہ امام ہیں اور فتنہ باز ہمیں نماز پڑھاتا ہے اور ہمیں یہ ناپسند ہے۔ فرمایا کہ لوگوں کے اعمال میں سے نماز بہترین چیز ہے اور لوگ جب نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیک کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے الگ رہو۔
(بخاري، الصحيح، 1: 246، رقم: 663)

یہ تھی اصل تحقیق ایک مشت داڑھی رکھناسنت ہے یا واجب امید ہے مکمل بات سمجھ گئے ہوں گے

والله و رسوله اعلم بالصواب

5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x