٣٨ ہجری قمری میں امام سجاد (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت ہوئی (١) ، آپ نے اپنی پوری زندگی مدینہ میں گزاری ۔ آپ نے اپنے جد امجد امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت کے دو سال درک کئے ، اس کے بعد اپنے چچا امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی امامت کے تقریبا دس سال درک کئے جس میں صرف چھے ماہ آپ نے ظاہری طور پر اسلامی خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تھی ،(٥٠ ہجری میں) امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے والد گرامی امام حسین (علیہ السلام) کی امامت کے دوران جس وقت معاویہ کی حکومت عروج پر تھی اور امام حسین (علیہ السلام) اس کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ جنگ کررہے تھے ، تلخ حواث کا مشاہدہ کیا ۔
کمال کا خوف خدا
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے ، ”یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟” تو فرماتے : ”تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟” (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص ۲
قول زر
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
”مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی، جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی۔ کوفہ ایک شہر کا نام نہیں، بلکہ خاموش امت کا نام ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو اور اُمت خاموش رہے، وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں۔
واقعہ کربلا کے بعد
امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ جب کبھی بازار سے گزرتے تو قصائی اپنی دکانیں بند کر دیتے
چھریوں ، ٹوکوں اور گوشت پر کپڑا ڈال دیا جاتا
آپ کبھی مسکراتے نہیں تھے ،ہر وقت روتے رہتے
کسی نے بولا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی اتنا نہ رویا کریں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا صرف ایک یوسف رضی اللہ گما تھا تو ان کی رو رو کے بینائی چلی گئی تھی میرا تو پورا خاندان ہی میرے سامنے ذبح کر دیا گیا ہے ۔
میں کیسے مسکراؤں ؟!!
شان امام زین العابدین
شان سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام تشریف لے آئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے سیدناامام حسین علیہ السلام کو چوما اور اپنے پہلو میں بٹھا لیا پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم فرمایا کہ میرے اس بیٹے کا بیٹا ہوگا
جس کا نام علی ہوگا جب قیامت کا دن ہوگا تو عرش سے آواز آئے گی لیقم سید العابدین یعنی عبادت گزاروں کے سردار کھڑے ہوں تو وہ سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کھڑے ہوں گے
حوالہ۔تاریخ دمشق
اہلِ سنّت کی علامت
سوال: امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کس چیز کو اَہلِ سنّت کی علامت قرار دیا؟
جواب: امام زین العابدین حضرت سَیِّدُنا ابوالحسن علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا : رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔(القول البدیع ، الباب الاول ، قول علی زین العابدین علامة ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۳۱ ، رقم : ۵ )
امام زین العابدین کا موقف امیر معاویہ کے بارے
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کا امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے متعلق کیا خیال ہے؟ فرمایا: میں اس شخص کے متعلق کیا کہوں جس کو اللہ تعالی نے اپنی وحی کی کتابت کے لیے چنا اور اپنی زمین پر امین بنایا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو بطور کاتب پسند کیا، میں تو ان کے متعلق یہی کہتا ہوں کہ ابو عبدالرحمن (معاویہ رضی اللہ عنہ)بہت عقل حلم اور امانت کے مالک تھے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جو شخص ان کی عیب جوئی کرے اللہ تعالی اس پر لعنت کرے، کہا گیا: آپ کے دادا اور ان کے درمیان جو اختلاف ہوا، اس کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: یہ لوح محفوظ میں لکھا گیا فیصلہ تھا اور اللہ تعالی کا فیصلہ ہو کر رہتا ہے ،تم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق خیر کے سوا کچھ نہ ہو، بے شک وہ بہت سارے فضائل کے حامل تھے ۔
( ذکر الامام ابی عبدالله: 101)
اعلی حضرت صحابہ واہلبیت کے حضور صحفہ 134
وفات مبارک
محرم ٦١ ہجری میں کربلا کی سرزمین پر اپنے والد امام حسین (علیہ السلام) کے قیام اور شہادت میں موجود تھے ۔ کربلا کے عظیم واقعہ کے بعد جب امامت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی تھی، دیگر اسیروں کے ساتھ کوفہ اور شام گئے ۔ اس سفر میں رنج و الم کے دوران اسیروں کے سرپرست اور ان کی ڈھارس تھے ۔ آپ نے اس سفر میں اپنے خطبوں سے یزید کی حکومت کو رسوا کیا اور شام سے واپس آنے کے بعد مدینہ ہی میں زندگی بسر کرتے رہے اور ٩٤ یا ٩٥ ہجری میں آپ کی شہادت ہوئی اور مشہور قبرستان بقیع میں اپنے چچا امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے پاس دفن ہوئے