سیدنا وسید شباب اہل الجنہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما یعنی کہ امام حسین کا یزید سے بیعت سے لےکر مکمل 10 دن یعنی کہ ایک محرمم سے لے کر کا واقعہ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اس کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔*
امام حسین کا یزید سے بیعت
*”▣_ اس میں ایک طرف ظلم و جور اور سنگدلی و بے حیائی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کو ان کا تصور بھی دشوار ہے۔ اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے ستر بہتر متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کا باطل سے مقابلہ اور اس پر ثابت قدمی اور قربانی و جانثاری کے ایسے محیر العقول واقعات ہیں۔ جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اور ان دونوں میں آنے والی نسلوں کے لئے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔*
- امام حسین کا یزید سے بیعت
- خلافت اسلامیہ پر ایک حادثہ عظیمہ
- اسلام پر بیعت اور یزید کا واقعہ
- حضرت معاویہ مدینہ میں
- ام المؤمنین حضرت عائشہ سے شکایت اور ان کی نصیحت
- حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا خطبہ
- اجتماعی طور پر معاویہ کو صیح مشورہ
- حضرت معاویہ کی وفات اور یزید کو نصیحتیں
- حضرت حسین و حضرت زبیر مکہ چلے گئے
- اہل کوفہ کے خطوط
- حالات میں انقلاب
- ابن زیاد کوفہ میں ※
- اہل حق اور اہل باطل میں فرق
- ہانی بن عروہ پر تشدد مار پیٹ
- مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی بے بسی
- مسلم بن عقیل کی گرفتاری
- مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کا مکالمہ
- _مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کا مکالمہ
- _حضرت حسین کا عزم کوفہ
- حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مشورہ
- حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ کیلئے روانگی
- فرزوق شاعر سے ملاقات
- حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خواب اور عزم کی وجہ
- کوفہ والوں کے نام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خط
- مسلم بن عقیل کے قتل کی خبرسے حضرت حسین کے ساتھیوں کا مشورہ
- ابن زیاد کی طرف سے حر بن یزید ایک ہزار کا لشکر لے کر پہنچ گئا
- حر بن یزید کا اعتراف
- امام حسین کی شہادت
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
خلافت اسلامیہ پر ایک حادثہ عظیمہ
حضرت ذی النورین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں منافقین کی سازشیں، بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے واقعات پیش آتے ہیں، مسلمانوں کی آپس میں تلوار چلتی ہے۔ مسلمان بھی وہ جو خیر الخلائق بعد الانبیاء کہلانے کے مستحق ہیں۔*
*”▣_ خلافت کا سلسلہ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر پہنچتا ہے تو خلافت راشدہ کا رنگ نہیں رہتا ملوکیت کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زمانہ سخت فتنہ کا ہے آپ اپنے بعد کے لئے کوئی ایسا انتظام کریں کہ مسلمانوں میں پھر تلوار نہ نکلے اور خلافت اسلامیہ پارہ پارہ ہونے سے بچ جائے۔*
*”_ باقتضاء حالات یہاں تک کوئی نا معقول یا غیر شرعی بات بھی نہ تھی۔*
*”▣_ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے بیٹے یزید کا نام مابعد کی خلافت کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ کوفہ سے چالیس مسلمان خوشامد پسند لوگ آتے ہیں یا بھیجے جاتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی درخواست کریں کہ آپ کے بعد آپ کے بیٹے یزید سے کوئی قابل اور ملکی سیاست کا ماہر نظر نہیں آتا۔ اس کے لئے بیعت خلافت لی جائے۔*
*”▣_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شروع میں کچھ تامل بھی ہوتا ہے۔ اپنے مخصوصین سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان میں اختلاف ہوتا ہے، کوئی موافقت میں رائے دیتا ہے کوئی مخالفت میں ۔ یزید کا فسق و فجور بھی اس وقت کھلا نہیں تھا۔ بالاخر بیعت یزید کا قصد کیا جاتا ہے اور اسلام پر یہ پہلا حادثہ عظیم ہے کہ خلافت نبوت ملوکیت میں منتقل ہوتی ہے۔*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
اسلام پر بیعت اور یزید کا واقعہ
شام و عراق میی معلوم نہیں کس طرح خوشامد پسند لوگوں نے یزید کے لئے بیعت کا چرچا کیا۔ اور یہ شہرت دی گئی کہ شام و عراق، کوفہ و بصرہ یزید کی بیعت پر متفق ہو گئے۔ اب حجاز کی طرف رخ کیا گیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر مکہ ومدینہ کو اس کام کے لئے مامور کیا گیا ،*
*”▣_ مدینہ کا عامل مروان تھا۔ اس نے خطبہ دیا اور لوگوں سے کہا کہ امیر المومنین معاویہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے یزید کی خلافت پر بیعت لی جائے۔*
*”▣_ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ غلط ہے، یہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت نہیں بلکہ کسریٰ اور قیصر کی سنت ہے۔ ابو بکر نے و عمر رضی اللہ عنہم نے خلافت اپنی اولاد میں منتقل نہیں کی۔ اور نہ اپنے کنبہ و رشتہ میں_,”*
*”▣_حجاز کے عام مسلمانوں کی نظریں اہل بیت اطہار پر لگی ہوئی تھیں۔ خصوصاً حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ پر جن کو وہ بجا طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مستحق خلافت سمجھتے تھے۔ وہ اس میں حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر ، عبد اللہ بن زبیر، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی رائے کے منتظر تھے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔*
*”▣_ ان حضرات کے سامنے اول تو کتاب وسنت کا یہ اصول تھا کہ خلافت اسلامیہ خلافت نبوت ہے۔ اس میں وراثت کا کچھ کام نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ آزادانہ انتخاب سے خلیفہ کا تقرر کیا جائے۔*
*”▣_ دوسرے یزید کے ذاتی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ کہ اس کو تمام ممالک اسلامیہ کا خلیفہ مان لیا جائے۔ ان حضرات نے اس سازش کی مخالفت کی اور ان میں سے اکثر آخر دم تک مخالفت پر ہی رہے۔ اسی حق گوئی اور حمایت حق کے نتیجہ میں مکہ و مدینہ میں اور کوفہ و کربلا میں قتل عام کے واقعات پیش آئے۔*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
حضرت معاویہ مدینہ میں
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خود ا۵ ھ میں حجاز کا سفر کیا، مدینہ طیبہ تشریف لائے، ان سب حضرات سے نرم و گرم گفتگو ہوئی، سب نے کھلے طور پر مخالفت کی۔*
ام المؤمنین حضرت عائشہ سے شکایت اور ان کی نصیحت
*”▣_امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ شکایت کی کہ یہ حضرات میری مخالفت کرتے ہیں۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے ان کو نصیحت کی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ان پر جبر کرتے ہیں اور قتل کی دھمکی دیتے ہیں۔ آپ کو ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے۔*
*”▣_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ غلط ہے، وہ حضرات میرے نزدیک واجب الاحترام ہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ شام و عراق اور عام اسلامی شہروں کے باشندے یزید کی بیعت پر متفق ہو چکے ہیں۔ بیعت خلافت مکمل ہو چکی ہے۔ اب یہ چند حضرات مخالفت کر رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ مسلمانوں کا کلمہ ایک شخص پر متفق ہو چکا ہے اور ایک بیعت مکمل ہو چکی ہے، کیا میں اس بیعت کو مکمل ہونے کے بعد توڑ دوں؟*
*”▣_ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا- یہ تو آپ کی رائے ہے آپ جانیں۔ لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ ان حضرات پر تشدد نہ کیجئے، احترام و رفق کے ساتھ ان سے گفتگو کیجئے۔ حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ایسے ہی کروں گا۔*
*®_ (ابن کثیر )*
*”▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قیام مدینہ کے زمانے میں یہ محسوس کرتے تھے کہ ہمیں مجبور کیا جائے گا، اس لئے مع اہل و عیال مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ عبداللہ بن عمر اور عبد الرحمٰن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہم حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا خطبہ
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ:- آپ سے پہلے بھی خلفاء تھے اور ان کے بھی اولاد تھی۔ آپ کا بیٹا کچھ ان کے بیٹوں سے بہتر نہیں ہے۔ مگر انہوں نے اپنے بیٹوں کے لئے وہ رائے قائم نہیں کی۔ جو آپ اپنے بیٹے کے لئے کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھا۔ آپ مجھے تفریق ملت سے ڈراتے ہیں۔ سو آپ یاد رکھیں کہ میں فرقہ بین المسلمین کا سبب ہرگز نہیں بنوں گا۔ مسلمانوں کا ایک فرد ہوں اگر سب مسلمان کسی راہ پر پڑ گئے تو میں بھی ان میں شامل رہوں گا_,”*
*”▣_ اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں گفتگو فرمائی۔ انہوں نے شدت سے انکار کیا کہ میں بھی اس کو قبول نہیں کروں گا ۔ پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر خطاب کیا، انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔*
*®( تاريخ الخلفاء)*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
اجتماعی طور پر معاویہ کو صیح مشورہ
اس کے بعد حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ خود جا کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے کہا کہ آپ کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ آپ اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت پر اصرار کریں۔ ہم آپ کے سامنے تین صورتیں رکھتے ہیں جو آپ کے پیشروؤں کی سنت ہے۔*
*”▣__ (ا)- آپ وہ کام کریں جو رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ اپنے بعد کسی کو متعین نہیں فرمایا بلکہ مسلمانوں کی رائے عامہ پر چھوڑ دیا۔*
*”▣__( ۲)- یا وہ کام کریں جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ ایک ایسے شخص کا نام پیش کیا جو نہ ان کے خاندان کا ہے نہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے اور اس کی اہلیت پر بھی سب مسلمان متفق ہیں۔*
*”▣__( ۳)- یا وه صورت اختیار کریں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی کہ اپنے بعد کا معاملہ چھ آدمیوں پر دائر کر دیا۔ اس کے سوا ہم کوئی چوتھی صورت نہیں سمجھتے نہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔*
*”▣__ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس پر اصرار رہا کہ اب تو یزید کے ہاتھ پر بیعت مکمل ہو چکی ہے اس کی مخالفت آپ لوگوں کو جائز نہیں ہے۔*
حضرت معاویہ کی وفات اور یزید کو نصیحتیں
*▣__ وفات سے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو کچھ وصیتیں فرما ئیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ اہل عراق حسین رضی اللہ عنہ کو تمہارے خلاف آمادہ کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو اور مقابلہ میں تم کامیاب ہو جاؤ تو ان سے درگزر کرنا اور ان کی قرابت رسول اللہ ﷺ کا پورا احترام کرنا۔ ان کا سب مسلمانوں پر بڑا حق ہے۔*
*”▣_(9)_ یزید کا خط ولید کے نام:-*
*”▣_ یزید نے تخت خلافت پر آتے ہی والی مدینہ ولید بن عقبہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت پر مجبور کرے۔ اور ان کو اس معاملہ میں مہلت نہ دے۔*
*”▣_ ولید نے مروان بن حکم کے مشورے سے اسی وقت ان حضرات کو بلوا بھیجا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی ذکاوت سے پوری بات سمجھ گئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں انتقال کی خبر مشہور ہونے سے پہلے وہ ہمیں یزید کی بیعت پر مجبور کریں۔*
*”▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ولید کے پاس پہنچے تو اس نے نے یزید کا خط سامنے رکھ دیا جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر اور اپنی بیعت کا تقاضا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور بیعت کے متعلق یہ فرمایا کہ میرے جیسے آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ خلوت میں پوشیدہ طور پر بیعت کرلوں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ سب کو جمع کریں اور بیعت خلافت کا معاملہ سب کے سامنے رکھیں_,”*
*”▣_ ولید نے اس بات کو قبول کر کے حضرت حسین کو واپسی کی اجازت دے دی۔*
حضرت حسین و حضرت زبیر مکہ چلے گئے
*⚀•_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی جعفر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیکر راتوں رات مدینہ سے نکل گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی یہی صورت اختیار کی کہ اپنی اولاد اور متعلقین کو لیکر مدینہ سے نکل گئے۔ اور دونوں مکہ مکرمہ پہنچ کر پناہ گزین ہو گئے۔*
*”⚀•_ یزید کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ولید بن عقبہ کی ستی پر محمول کر کے ان کو معزول کر دیا۔ ان کی جگہ عمرو بن سعد کو امیر مدینہ بنایا اور ان کی پولیس کا افسر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی عمرو بن زبیر کو بنایا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہے۔*
*”⚀•_ عمرو بن زبیر دو ہزار کا لشکر لیکر روانہ ہو گیا۔ اور مکہ سے باہر قیام کر کے اپنے بھائی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجے کہ مجھے یزید کا حکم ہے کہ تمہیں گرفتار کروں۔ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ مکہ مکرمہ کے اندر قتال ہو۔ اس لئے تم خود کو میرے حوالے کر دو۔*
*”⚀•_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے چند نو جوانوں کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ جنہوں نے اس کو شکست دی اور عمرو بن زبیر نے ابن علقمہ کے گھر میں پناہ لی۔*.
اہل کوفہ کے خطوط
*▣_ ادھر جب اہل کوفہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی اور یہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا تو کچھ شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر تیار نہیں۔ آپ فوراً کوفہ آ جائیے۔ ہم سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔*
*”▣_ اس کے دو روز بعد اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور دوسرے خطوط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ جسمیں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا۔ اور چند وفود بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ وفود اور خطوط سے متاثر ہوئے۔ مگر حکمت و دانشمندی سے یہ کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ حالات کا اندازہ ہوا۔*
*▣”_مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر مختار کے گھر پر مقیم ہوئے۔ چند روز کے قیام سے یہ اندازہ لگا لیا کہ یہاں کے عام مسلمان حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بے چین ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت خلافت شروع کر دی۔ چند روز میں صرف کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں نے حضرت حسین کے لئے بیعت کر لی۔ اور یہ سلسلہ روز روز بڑھتا جار ہا تھا،*
*▣”_ جس وقت مسلم بن عقیل کو یہ اطمینان ہو گیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائیں تو بے شک پورا عراق ان کی بیعت میں آجائے گا۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔ (کامل ابن اثیر)*
حالات میں انقلاب
*▣_ مگر یہ خط لکھے جانے کے بعد کوفہ سے ایک خط یزید کو بھیج دیا جس میں مسلم بن عقیل کے آنے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت لینے کا واقعہ ذکر کر کیا گیا،*
*“▣۔ یزید نے ایک فرمان نکال کر کوفہ کا امیر عبید اللہ بن زیاد کو مقرر کیا اور خط لکھا کہ مسلم بن عقیل کو گرفتار کرے اور قتل کر دے۔ یا کوفہ سے نکال دے۔*
*”※ (13)_حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خط اہل بصرہ کے نام ※*
*”▣_ ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک خط اہل بصرہ کے نام پہنچا۔ جس کا مضمون یہ تھا: ”آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرو۔ اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لیے کوشش کرو ۔ ( کامل ابن اثیر ص ۹ ج ۴)*
*”▣_ لیکن جو شخص خط لے کر آیا تھا۔ اس کو بھی ابن زیاد کے سامنے پیش کر دیا گیا ،ابن زیاد نے اس قاصد کو قتل کر ڈالا۔ اور اس کے بعد تمام اہل بصرہ کو جمع کر کے کہا کہ : ” جو شخص میری مخالفت کرے میں اس کے لیے عذاب الیم ہوں۔ اور جو موافقت کرے اس کے لیے راحت ہوں۔*
*”▣_اس کے بعد یزید کا حکم پا کر کوفہ کے لیے روانہ ہو گیا,*
ابن زیاد کوفہ میں ※
*▣__کوفہ کے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کے منتظر تھے۔ اور ان میں سے بہت سے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پے کو پہچانتے بھی نہ تھے۔ جب ابن زیاد کوفہ پہنچا تو ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ جس مجلس سے گزرتا مرحبا یا ابن رسول الله کہہ کر اس کا استقبال کرتے تھے،*
*”▣_ابن زیاد خاموشی کے ساتھ یہ سب مظاہرے اور والی کوفہ کا معاملہ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں کڑ رہا تھا کہ کوفہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا پورا تسلط ہو چکا ہے، اگلے روز صبح ہی ابن زیاد نے اہل کوفہ کو جمع کر کے ایک تقریر کی، جس میں کہا کہ امیر المؤمنین نے مجھے تمہارے شہر کا حاکم بنایا ہے،*.
*”▣)_(15)_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے تاثرات:-*
*”▣_ مسلم بن عقیل جو مختار نے جب ابن زیاد کے آنے کی خبر سنی تو انہیں خطرہ ہوا اور مختار بن ابی عبید کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے مکان پر پناہ لی۔*
*”▣_اتفاقا ہانی بن عروہ جن کے گھر میں مسلم بن عقیل روپوش تھے بیمار ہو گئے۔ ابن زیادان کی بیماری کی خبر پا کر عیادت کے لیے ان کے گھر پہنچا۔ اس وقت عمارہ بن عبد سلولی نے ان سے کہا کہ یہ موقع غنیمت ہے کہ اس وقت دشمن ( ابن زیاد) تمہارے قابو میں ہے قتل کرا دو۔ ہانی بن عروہ نے کہا کہ شرافت کے خلاف ہے کہ میں اس کو اپنے گھر میں قتل کر دوں۔*
اہل حق اور اہل باطل میں فرق
*▣_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ سے بھی کہا گیا کہ فاجر کو قتل کر دیں۔ پھر آپ مطمئن ہو کر قصر امارت پر بیٹھیں، مگر انہوں نے یہ مناسب نہیں سمجھا ،*
*”▣_ یہاں یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ مسلم بن عقیل ﷺ کو اپنی موت سامنے نظر آ رہی ہے اور نہ صرف اپنی موت بلکہ اپنے پورے خاندان اہل بیت کی موت اور اس کے ساتھ ایک صحیح اسلامی مقصد کی ناکامی دیکھ رہے ہیں۔*
*”▣_ اور جس شخص کے ہاتھوں یہ سب کچھ ہونے والا ہے وہ اسی طرح ان کے سامنے ہے کہ بیٹھے بیٹھے اس کو ختم کر سکتے ہیں مگر اہل حق اور خصوصاً اہل بیت اطہار کا جو ہر شرافت اور تقاضائے اتباع سنت دیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس وقت بھی ان کا ہاتھ نہیں اٹھتا۔*
*”▣_ یہی اہل حق کی علامت ہے کہ وہ اپنی ہر حرکت و سکون اور ہر قدم پر سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک ہمارا یہ قدم صحیح ہے یا نہیں۔*
ہانی بن عروہ پر تشدد مار پیٹ
*▣”_جب ابنِ زیاد کو ہانی کے بارے میں پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل کو پناہ دی ہے تو ان کو بلوا کر مسلم بن عقیل کو حوالے کروانے کو کہا ورنہ تمہیں بھی قتل کر دیں گے اور ان کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی ،*
*”▣_ادھر شہر میں مشہور ہو گیا کہ ہانی بن عروہ قتل کر دیئے گئے ہیں۔ جب یہ خبر عمرو بن حجاج کو پہنچی تو وہ قبیلہ مذ جج کے بہت سے جوانوں کو لے کر موقع پر پہنچے اور ابن زیاد کے مکان کا محاصرہ کر لیا، ابن زیاد نے قاضی شریح کو کہا کہ آپ باہر جا کر لوگوں کو بتلائیں کہ ہانی بن عروہ صحیح سالم ہیں۔ قتل نہیں کئے گئے میں خود ان کو دیکھ کر آیا ہوں، ان کی بات سن کر عمر و بن حجاج نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب اطمینان ہے تم واپس چلے جاؤ۔*
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی بے بسی
*▣_ ہانی بن عروہ کے متعلق شہادت کی خبر اور اس کے خلاف قبیلہ مذحج کے ہنگامہ اور ابن زیاد کے قصر کے محاصرہ کی اطلاع جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ملی تو وہ بھی مقابلہ کے لیے تیار ہو کر نکلے اور جن اٹھارہ ہزار مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ان کو جمع کیا چار ہزار آدمی جمع ہو گئے۔ اور اس لشکر نے ابن زیاد کے قصر کا محاصرہ کر لیا,*
*”▣_ ابن زیاد کے ساتھ قصر امارت میں صرف تیس سپاہی اور کچھ خاندان کے سادات تھے۔ ابن زیاد نے ان میں چند ایسے لوگوں کو منتخب کیا جن کا اثر و رسوخ ان قبائل پر تھا جو مسلم بن عقیل کے ساتھ محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ اور ان کو کہا کہ تم باہر جا کر اپنے اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو مسلم بن عقیل کا ساتھ دینے سے روکو۔ مال و حکومت کا لالچ دے کر یا حکومت کی سزا کا خوف دلا کر ۔ جس طرح بھی ممکن ہو ان کو مسلم سے جدا کر دو۔*
*”▣_ ادھر سادات اور شیعہ کو حکم دیا کہ تم لوگ قصر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو اس بغاوت سے روکو۔ جب لوگوں نے اپنے سادات شیعہ کی زبانی باتیں سنیں تو متفرق ہونا شروع ہو گئے۔ عورتیں اپنے بیٹوں بھائیوں کو محاذ سے واپس بلانے کے لیے آنے لگیں۔ یہاں تک کہ مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس لوگ رہ گئے۔ اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہ رہا تھا۔ تو انہیں ایک عورت نے اپنے گھر میں پناہ دی،*
*”▣_اس وقت ابن زیاد اپنے قصر سے اتر کر مسجد میں آیا اور اپنی پولیس کے افسر کو حکم دیا کہ شہر کے تمام گلی کوچوں کے دروازں پر پہرہ لگا دو۔ کوئی باہر نہ جاسکے۔ اور سب گھروں کی تلاشی لو۔“*
*”▣_ ادھر جب اس عورت کے لڑکوں کو تلاشی کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے خود مسلم بن عقیل کی خبر دے دی اور ستر سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا ، انہوں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا ، اس مقابلہ میں زخمی ہو گئے مگر ان کے قابو میں نہ آئے۔ یہ لوگ چھت پر چڑھ گئے۔ اور پتھر برسانے شروع کیے۔ اور گھر میں آگ لگا دی۔*
مسلم بن عقیل کی گرفتاری
*▣__ محمد بن اشعث نے پکار کر کہا کہ میں آپ کو امان دیتا ہوں ، اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالو، مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ تن تنہا ستر سپاہیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے زخموں سے چور چور ہو کر تھک چکے تھے۔ ایک دیوار سے کمر لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔*
*”▣_ فرمایا:- میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا ہوں بلکہ میں حسین اور آل حسین کی جانوں کے لئے رو رہا ہوں۔ جو میری تحریر پر عنقریب کوفہ پہنچنے والے ہیں۔ تم کم از کم تم میری ایک بات مان لو۔ وہ یہ کہ ایک آدمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس فوراً روانہ کر دو ۔ کہ جو ان کو میری حالت کی اطلاع کر کے یہ کہہ دے کہ آپ راستے ہی سے اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیں، کوفہ والوں کے خطوط سے دھوکہ نہ کھائیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی بے وفائی سے گھبرا کر آپ کے والد اپنی موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔“*
*”▣_ محمد بن اشعث نے حلف کے ساتھ وعدہ کیا اور وعدہ کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کے لیے ایک آدمی کو خط دے کر ان کی طرف بھیج دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس وقت تک مقام زیالہ تک پہنچ چکے تھے۔ محمد بن اشعث کے قاصد نے یہاں پہنچ کر خط دیا۔ خط پڑھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-*
*”▣_ جو چیز ہو چکی ہے وہ ہو کر رہے گی، ہم صرف اللہ تعالی سے اپنی جانوں کا ثواب چاہتے ہیں اور امت کے فساد کی فریاد کرتے ہیں _,”*
مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کا مکالمہ
*▣__ ابن زیاد نے کہا کہ:- اے مسلم تو نے بڑا ظلم کیا کہ مسلمانوں کا نظم مستحکم اور ایک کلمہ تھا۔ سب ایک امام کے تابع تھے۔ تم نے آکر ان میں تفرقہ ڈالا۔ اور لوگوں کو اپنے امیر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔*
*”▣_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ معاملہ یہ نہیں بلکہ اس شہر کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھے۔ کہ تمہارے باپ نے ان کے نیک اور شریف لوگوں کو قتل کر دیا۔ ان کے خون ناحق بہائے اور یہاں کے عوام پر کسریٰ و قیصر جیسی حکومت کرنی چاہی۔ اس لئے ہم اس پر مجبور ہوئے کہ عدل قائم کرنے اور کتاب وسنت کے احکام نافذ کرنے کی طرف لوگوں کو بلائیں اور سمجھائیں۔*
*”▣_ اس پر ابن زیاد اور زیادہ برافروختہ ہوا کہ ان کو قصر امارت کی اوپر کی منزل پر لے جاؤ اور سرکاٹ کر نیچے پھینک دو۔ اور ابن زیاد کے حکم کے موافق ان کو شہید کر کے نیچے ڈال دیا گیا۔ ( إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ )*
*”▣_حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو بازار میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے ان دونوں کے سرکاٹ کر یزید کے پاس بھیج دیئے۔*
*”▣_ یزید نے شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ عراق کے قریب پہنچ گئے ہیں اس لئے جاسوس اور خفیہ رپورٹر سارے شہر میں پھیلا دو۔ اور جس پر ذرا بھی حسین رضی اللہ عنہ کی تائید کا شبہ ہو اس کو قید کر لو ۔ مگر سوا اس شخص کے جو تم سے مقابلہ کرے کسی کو قتل نہ کرو۔*
_مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کا مکالمہ
*▣_ ابن زیاد نے کہا کہ:- اے مسلم تو نے بڑا ظلم کیا کہ مسلمانوں کا نظم مستحکم اور ایک کلمہ تھا۔ سب ایک امام کے تابع تھے۔ تم نے آکر ان میں تفرقہ ڈالا۔ اور لوگوں کو اپنے امیر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔*
*”▣_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ معاملہ یہ نہیں بلکہ اس شہر کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھے۔ کہ تمہارے باپ نے ان کے نیک اور شریف لوگوں کو قتل کر دیا۔ ان کے خون ناحق بہائے اور یہاں کے عوام پر کسریٰ و قیصر جیسی حکومت کرنی چاہی۔ اس لئے ہم اس پر مجبور ہوئے کہ عدل قائم کرنے اور کتاب وسنت کے احکام نافذ کرنے کی طرف لوگوں کو بلائیں اور سمجھائیں۔*
*”▣_ اس پر ابن زیاد اور زیادہ برافروختہ ہوا کہ ان کو قصر امارت کی اوپر کی منزل پر لے جاؤ اور سرکاٹ کر نیچے پھینک دو۔ اور ابن زیاد کے حکم کے موافق ان کو شہید کر کے نیچے ڈال دیا گیا۔ ( إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ )*
*”▣_حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو بازار میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے ان دونوں کے سرکاٹ کر یزید کے پاس بھیج دیئے۔*
*”▣_ یزید نے شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ عراق کے قریب پہنچ گئے ہیں اس لئے جاسوس اور خفیہ رپورٹر سارے شہر میں پھیلا دو۔ اور جس پر ذرا بھی حسین رضی اللہ عنہ کی تائید کا شبہ ہو اس کو قید کر لو ۔ مگر سوا اس شخص کے جو تم سے مقابلہ کرے کسی کو قتل نہ کرو۔*
_حضرت حسین کا عزم کوفہ
*▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہل کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط اور بہت سے وفود پہلے پہنچ چکے تھے۔ پھر مسلم بن عقیل نے یہاں کے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی بیعت کی خبر کے ساتھ ان کو کوفہ کے لئے دعوت دے دی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا عزم کر لیا۔*
*”▣__ لیکن جب یہ خبر لوگوں میں مشہور ہوئی تو بجز عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اور کسی نے ان کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا۔ بلکہ بہت سے حضرات حضرت حسین رضی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں۔ اہل عراق و کوفہ کے وعدوں، بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں وہاں جانے میں آپ کے لئے بڑا خطرہ ہے-*
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مشورہ
*”▣__ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو تشریفلائے اور فرمایا کہ- بھائی میں اس سے آپ کو خدا کی پناہ میں دیتا ہوں خدا کے لئے آپ مجھے یہ بتلائیں کہ آپ کسی ایسی قوم کے لئے جارہے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر مسلط ہونے والے امیر کو قتل کر دیا ہے۔ اور وہ لوگ اپنے شہر پر قابض ہو چکے ہیں۔ اور اپنے دشمن کو نکال چکے ہیں تو بیشک آپ کو ان کے بلانے پر فوراً چلے جانا چاہئے۔*
*”▣__ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا اچھا میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہوں پھر جو کچھ سمجھ میں آئے گا عمل کروں گا۔*
*”▣__ دوسرے روز ابن عباس رضی اللہ عنہما پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے بھائی میں صبر کرنا چاہتا ہوں مگر صبر نہیں آتا۔ مجھے آپ کے اس اقدام سے آپ کی اور اہل بیت کی ہلاکت کا شدید خطرہ ہے۔ اہل عراق عہد شکن بے وفا لوگ ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ جائیے۔ آپ اس شہر مکہ میں اقامت کریں۔ آپ اہل حجاز کے مسلم رہنما اور سردار ہیں۔ اور اگر اہل عراق آپ سے مزید تقاضا کریں تو آپ ان کو لکھیں کہ پہلے امیر و حکام کو اپنے شہر سے نکال دو پھر مجھے بلاؤ، تو میں آجاؤں گا۔*
*”▣__ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھائی اگر آپ جانا طے ہی کر چکے ہیں تو خدا کے لئے اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیے۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ اسی طرح اپنی عورتوں اور بچوں کے سامنے قتل کئے جائیں۔ جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کئے گئے ہیں۔*
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ کیلئے روانگی
*▣_حضرت حسین ﷺ اپنے نزدیک ایک دینی ضرورت سمجھ کر خدا کے لئے عزم کر چکے تھے۔ مشورہ دینے والوں نے ان کو خطرات سے آگاہ کیا۔ مگر مقصد کی اہمیت نے ان کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مجبور کر دیا۔ اور ذی الحجہ ٦٠ ھ کی تیسری یا آٹھویں تاریخ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس وقت یزید کی طرف سے مکہ کا حاکم عمرو بن سعید بن العاص مقرر تھا ،*
*”▣_اس کو ان کی روانگی کی خبر ملی تو چند آدمی راستہ پر ان کو روکنے کے لئے بھیجے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی سے انکار فرمایا اور آگے بڑھ گئے۔*
فرزوق شاعر سے ملاقات
*”▣_ راستہ میں فرزوق شاعر عراق کی طرف سے آتا ہوا ملا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پوچھا کہ کہاں کا قصد ہے؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بات کاٹ کر ان سے پوچھا کہ یہ تو بتلاؤ اہل عراق و کوفہ کو تم نے کس حال میں چھوڑا ہے؟*
*”▣_ فرزوق نے کہا کہ : اہل عراق کے قلوب تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ اور تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے,”*
*”▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو، اللہ ہی کے ہاتھ میں تمام کام ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمارا رب ہر روز نئی شان میں ہے۔ اور اگر تقدیر الہٰی ہماری مراد کے موافق ہوئی تو ہم اللہ کا شکر کریں گے۔ اور ہم شکر کرنے میں بھی انہی کی اعانت طلب کرتے ہیں اور اگر تقدیر الہی ہماری مراد میں حائل ہو گئی۔ تو وہ شخص خطاء پر نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خوف خدا ہو “*
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خواب اور عزم کی وجہ
*▣__عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کی خبر پائی تو ایک خط لکھ کر اپنے بیٹوں کے ہاتھ روانہ کیا تیزی سے پہنچیں اور راستہ میں حضرت حسین کو روک دیں۔*
*”▣__ یہ خط لکھ کر عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید کی طرف سے والی مکہ عمر بن سعد کے پاس تشریف لے گئے۔ اور اس سے وعدہ تحریر لکھوایا کہ اگر وہ واپس آجائیں تو ان کے ساتھ مکہ میں اچھا سلوک کیا جائے گا۔*
*”▣__ جب یہ خط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اس وقت آپ اپنے اس عزم کی ایک اور وجہ بیان کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے اور مجھے آپ ﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے میں اس حکم کی بجا آوری کی طرف جارہا ہوں ۔ خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے،*
*”▣__انہوں نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے۔ فرمایا کہ آج تک میں نے وہ خواب کسی سے بیان کیا ہے نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ میں اپنے پروردگار سے جاملوں ۔*
*®( کامل ابن اثیر ص١ ج ۴)*
کوفہ والوں کے نام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خط
*▣_حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام حاجر پر پہنچے تو اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھ کر حضرت قیس کے ہاتھ روانہ کیا، خط میں اپنے آنے کی اطلاع اور جس کام کے لئے ان کو اہل کوفہ نے بلایا تھا اس میں پوری کوشش کرنے کی ہدایت تھی۔*
*”▣_ حضرت قیس جب یہ خط لیکر قادسیہ تک پہنچے تو یہاں ان کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا گیا ،ابن زیاد نے ان کو حکم دیا کہ قصر امارت کی چھت سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر سب و شتم اور لعن و طعن کرے، مگر حضرت قیس نے بلند آواز سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے آنے کا مقصد بیان کر دیا ،*
*”▣_ اس سے ناراض ہو کر ابن زیاد نے ان کو قصر کی بلندی سے پھینک دینے کا حکم دیا اور حضرت قیس شہید ہو گئے ،*
مسلم بن عقیل کے قتل کی خبرسے حضرت حسین کے ساتھیوں کا مشورہ
*▣__ راستے میں ایک پڑاؤ پر اچانک عبداللہ ابن مطیع سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی کہا کہ: ”اے ابن رسول اللہ ! میں تمہیں اللہ کا اور عزت اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔ کہ آپ اس ارادہ سے رک جائیں۔*
*”_ اگر آپ بنی امیہ سے ان کے اقتدار کو لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر دیں گے۔ آپ ایسا ہر گز نہ کریں۔ اور کوفہ نہ جائیں اپنی جان کو بنی امیہ کے حوالے نہ کریں“۔ (ابن اثیر)*
*”_ مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ارادہ ملتوی نہ کیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔*
*”▣_ مقام ثعلبیہ میں پہنچ کر آپ کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر ملی جو عبداللہ بن عاص کے بھیجے ہوئے قاصد نے دی، یہ خبر سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں نے بھی ان سے با اصرار عرض کیا کہ خدا کے لئے اب آپ یہیں سے لوٹ جائیں۔ مگر یہ بات سن کر بنو عقیل جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم مسلم بن عقیل کا قصاص لیں گے۔ یا انہیں کی طرح اپنی جان دے دیں گے۔*
*”▣_ اور ساتھیوں میں سے بعض نے یہ بھی کہا کہ آپ مسلم بن عقیل نے نہیں ہیں آپ کی شان کچھ اور ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جب اہل کوفہ آپ کو دیکھیں گے تو آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔*
*”▣_ یہاں تک کہ پھر آگے بڑھنا طے کر کے سفر کیا گیا اور مقام زیالہ پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔*
*”▣_مقام زیالہ پر پہنچ کر یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی بھائی عبداللہ ابن لقیط جن کو راستہ سے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تھا وہ بھی قتل کر دیئے گئے۔ یہ خبریں پانے کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے۔ اب جس کا جی چاہے واپس ہو جائے۔ میں کسی کی ذمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتا۔*
*”▣_ اس اعلان کیساتھ راستہ سے ساتھ ہو نیوالے بدوی لوگ سب داہنے بائیں چل دیئے۔ اور اب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مکہ سے ان کے ساتھ آئے تھے۔*
ابن زیاد کی طرف سے حر بن یزید ایک ہزار کا لشکر لے کر پہنچ گئا
*▣_ راستہ میں دو پہر کے وقت دور سے گھوڑے سوار فوج آتی ہوئی نظر آتی ہے ، یہ دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے نزدیک پہنچ کر محاذ جنگ بنانے میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھوڑے سوار فوج حربن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی۔*
*”▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ سب لوگ خوب پانی پی کر اور گھوڑوں کو پلا کر سیراب ہو جاؤ۔*
*”▣_ یہاں ظہر کی نماز کا وقت آ گیا۔ اور سب نماز کے لیے جمع ہو گئے ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فریق مقابل کو سنانے کے لئے ایک تقریر فرمائی۔*
*”▣_تقریر سن کر سب خاموش رہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دیا اور حربن یزید سے خطاب کر کے فرمایا تم اپنے لشکر کے ساتھ علیحدہ نماز پڑھو گے یا ہمارے ساتھ ۔۔ اس نے کہا کہ نہیں آپ ہی نماز پڑھا ئیں۔ ہم سب آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ حضرت حسیں رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر پڑھائی اور پھر اپنی جگہ تشریف لے گئے۔*.
*”▣_ پھر نماز عصر کا وقت آیا تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور سب شریک جماعت ہوئے۔ عصر کے بعد آپ نے ایک خطبہ دیا۔ جس میں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ،*
*”▣_حر بن یزید نے کہا کہ ہمیں ان خطوط اور وفود کی کچھ خبر نہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دو تھیلے خطوط سے بھرے ہوئے نکالے اور ان کو ان لوگوں کے سامنے انڈیل دیا۔ حر نے کہا کہ بہر حال ہم ان خطوط کے لکھنے والے نہیں ہیں اور ہمیں امیر کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ ہم آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں جب تک ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچا دیں۔*
*”▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس سے تو موت بہتر ہے۔*
حر بن یزید کا اعتراف
*”▣_ حر بن یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے آپ کے قتال کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک آپ کو کوفہ نہ پہنچا دوں۔*
*”▣_ اس لئے آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ پہنچائے اور نہ مدینہ یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید کو یا ابن زیاد کو لکھیں۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی ایسا مخلص پیدا کر دے کہ میں آپ کے مقابلہ اور آپ کے ایذا سے بچ جاؤں۔*
*”▣_ اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عذیب اور قادسیہ کے راستے سے بائیں جانب چلنا شروع کر دیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر کے ساتھ چلتا رہا۔ اسی اثناء میں حضرت حسین ﷺ نے تیسرا خطبہ دیا،*
*”▣_ حر بن یزید کچھ تو پہلے سے اہل بیت کا احترام دل میں رکھتا تھا کچھ خطبوں سے متاثر ہو رہا تھا۔*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
امام حسین کی شہادت
اس سے قبل کے تمام واقعات کے بعد جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین کی شہادت ظالموں نے کردی اس کو مکمل پڑھیں نیچے کے بٹن پر کلک کرکے
[…] امام حسین کا یزید سے بیعت سے لے کر امام حسین کی شہادت تک […]