امام حسن کا جامع تعارف بچپن سے شہادت تک

نواسئہ رسول حضرت امام حسن کا جامع تعارف یعنی کہ امام حسین کا بچپن سے لےکر شہادت تک کے تمام اہم معلومات کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے

امام حسن کا جامع تعارف

ولادتِ باسعادت و نام و اَلقاب
امامِ عالی مقام ، امامِ ہُمام ، امامِ عرش مقام حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ولادتِ باسعادت15 رَمضانُ المبارَک 3ہجری میں ہوئی۔(الطبقات الکبیر لابن سعد ج۶ص۳۵۲)آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکامبارک نام: حسن ،کنیت: ابو محمد اورالقاب: تقی، سیّد، سِبطِ رسولُ اللّٰہ اور سبط اکبرہے، آپ کو رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل (یعنی رسولِ خدا کے پھول)بھی کہتے ہیں۔
کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی
زَہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول (حدائق بخشش ص۷۹)

حضرت حسن کی ولادت سے قبل بشارت

ولادت سے قبل بِشارت
رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی چچی جان حضرت سیّدتنا اُمُّ الْفَضْل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
نے آپ سے اپنا خواب عرض کیا:’’ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!

ہم شکلِ مصطَفٰے

حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ (امام )حسن (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) سے بڑھ کر رسولِ کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری ج۲ص۵۴۷حدیث ۳۷۵۲)

ایسا بیٹاکسی ماں نے نہیں جنا!

حضرت سیّدناعبدُ اللّٰہ ابن زُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابھی دیگرصَحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرح نواسہ ٔرسول حضرت سیّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے بہت محبت فرماتے تھے۔ ایک موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا :’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! عورَتوں نے حسن بن علی (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) جیسا فرزند نہیں جنا۔‘‘(سبلُ الھدی ج۱۱ص۶۹)
شفقتِ مصطَفٰے مرحبا! مرحبا!
!نبیِّ رحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بہت محبت تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَحضرت سیّدُناامام حسن مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوکبھی آغوشِ شفقت (یعنی مبارک گود )میں اُٹھائے تو کبھی دوشِ اقدس(یعنی مبارک کندھوں) پر سوار کئے ہوئے گھر شریف سے باہَر تشریف لاتے، کبھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دیکھنے اور پیار کرنے کے لئے سیّدہ فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر شریف پر تشریف لے جاتے،حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے بے حد مانوس ہو(یعنی ہِل)گئے تھے کہ کبھی نماز کی حالت میں مبارَک پیٹھ پر سُوار ہو جاتے۔

امام حسن مجتبٰی کی خلافت

امیر المؤمنین حضرتِ سیّدنا علی المرتضیٰ شیرخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی شہادت کے بعد حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تواہلِ کوفہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے وہاں کچھ عرصہ قیام فرمایاپھر چند شرائط کے ساتھ اُمورِ خلافت حضرت ِسیّدنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوسپرد فرمادئیے ۔ حضرت سیّدُنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے تمام شرائط قبول کیں اور باہم صلح ہوگئی۔یوں تاجدارِ رِسالت،شہنشاہِ نبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا یہ معجزہ ظاہرہواجو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایاتھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّمیرے اس فرزند کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔(سوانح کربلا ص ۹۶ملخصاً)

امام حسن مجتبٰی کا خطبہ

حضرت سیِّدُنا شیخ یوسف بن اسمٰعیل نبہانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں: جب حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرت سیدناامیر معاو یہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بیعت کرلی اور اُمورِ خلافت ان کے سپرد فرمادیے تو حضرت سیدناامیرمعاویہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے کوفے آنے سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! بیشک ہم تمہارے مہمان ہیں اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اہلِ بیت ہیں کہ جن سے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ہر قسم کی ناپاکی دور کردی اور انہیں خوب ستھرا فرمادیا۔‘‘ یہ کلمات(یعنی جملے) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بار بار دہرائے حتی کہ مجلس میں موجود ہر شخص رونے لگا اور ان کے رونے کی آواز دور تک سنی گئی۔ (برکاتِ اٰلِ رسول ص۱۳۸)

ہاتھوں ہاتھ ضرورت پوری کردی

حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں ایک سائل نے حاضر ہو کرتحریری درخواست پیش کی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بغیر پڑھے فرمایا: تمہاری ضرورت پوری کی جائے گی۔عرض کی گئی :اے نواسۂ رسو ل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ!آپ نے اس کی درخواست پڑھ کر جواب دیا ہوتا۔ ارشاد فرمایا: جب تک میں اس کی درخواست پڑھتا وہ میرے سامنے ذلت کی حالت میں کھڑا رہتا پھر اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّمجھ سے پوچھتا کہ تو نے سائل کو اتنی دیر کھڑا رکھ کر کیوں ذلیل کیا ؟ تو میں کیا جواب دیتا؟ (احیاء العلوم ج۳ص۳۰۴)

دس ہزار درہم سے نواز دیا
حضرت سیّدُنا امامِ حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پہلو میں بیٹھ کر ایک آدمی ایک بار اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دس ہزار درہم کا سُوال کررہا تھا،جیسے ہی آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اس حاجت مندکی یہ دعاسنی تو فوراً اپنے گھر تشریف لائے اور اس شخص کے لئے10 ہزار درہم بِھجوا دیئے۔(ابن عساکر ج۱۳ ص۲۴۵)
میرا دل کرتا ہے میں بھی حج کروں
ہو عطا زادِ سفر چشمِ کرم!

}شوقِ تلاوت
نواسۂ رسول، چمنِ مرتضیٰ کے جنّتی پھول، جگر گوشۂ بتول سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہر رات سُوْرَۃُ الْکَھْف کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہ مبارک سورت ایک تختی پرلکھی ہوئی تھی،آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنی جس زوجہ کے پاس تشریف لے جاتے یہ مبارک تختی بھی آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے ہمراہ ہوتی ۔ (شعب الایمان ج۲ص۴۷۵حدیث۲۴۴۷)

معمولاتِ امام حسن

حضرت سیّدنا ابو سعیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: حضرت سیّدنا امیرمعاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے ایک بار مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے ایک قریشی شخص سے سیّدنا امام حسن بن علیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے متعلق دریافت فرمایاتو اس نے عرض کی: اے امیر المؤمنین! وہ نمازِ فجر ادا فرمانے کے بعد سورج طلوع ہونے تک مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں تشریف فرما رہتے ہیں۔پھرملاقات کیلئے آئے ہوئے معززین سے ملاقات و گفتگو فرماتے یہاں تک کہ کچھ دن نکل آتا، اب دو رکعت نماز ادا فرماتے، اس کے بعد اُمَّہاتُ المؤمنین کی بارگاہ میں حاضری دیتے،سلام پیش فرماتے،بعض اوقات اُمَّہات المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّآپ کو کوئی چیز تحفۃً پیش فرماتیں۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے گھر تشریف لے آتے۔آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہشام کے وقت بھی یونہی کیا کرتے تھے۔پھر اس قریشی آدمی نے کہا: ہم میں کوئی بھی ان کا ہم مرتبہ نہیں ۔ ( ابن عساکرج۱۳ ص۲۴۱)

مدینہ تا مکّہ 20بارپیدل سفر

حضرت سیِّدُنا محمد بن علی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں: حضرتِ سیِّدُنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا:مجھے حیا آتی ہے کہ میں اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّسے اس حال میں ملاقات کروں کہ اس کے گھر کی طرف کبھی نہ چلا ہوں۔چنانچہ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ 20بار مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے پیدل مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ۔ (حلیۃ الاولیاء ج۲ص۴۶رقم۱۴۳۱)

شہادت کا سبب

حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زہرد یا گیا۔اُس زہر کا آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپر ایسا اثر ہوا کہ آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خارِج ہونے لگیں، 40 روز تک آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو سخت تکلیف رہی۔

وفات حسرت آیات
امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ ہمام حضرت سیدنا امام ابو محمد حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے 5ربیع الاول50ھ کو مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اس دارِ ناپائیدار سے رحلت فرمائی(یعنی وفات پائی)، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ۔(صفۃ الصفوۃ ج۱ص۳۸۶)یہ بھی کہا گیا ہے کہ49ھ میں وفات ہوئی۔بوقتِ شہادت حضرت سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی عمر شریف 47سال تھی۔ (تقریب الھذیب لابن حجر عسقلانی ص۲۴۰ )
{۲۹}نمازِ جنازہ
آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی نمازِ جنازہ حضرت سیّدنا سعید بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے پڑھائی جو اس وقت مدینۃُ المنوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے گورنر تھے۔حضرت سیّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا ۔ (الاستیعاب ج۱ص۴۴۲ملخّصاً)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۳۰}جنازے میں لوگوں کا رش
حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے جنازے میں اس قدر جمِّ غفیر (Crowd) تھا کہ حضرت سیّدنا ثَعْلَبَہ بن ابی مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں:میں امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے جنازے میں شریک ہوا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو جنت البقیع میں(اپنی والدۂ ماجدہ کے پہلو میں) دفنایا گیا، میں نے جنت البقیع میں لوگوں کا اس قدر

اِزدِحام(Crowd) دیکھا کہ اگر سوئی بھی پھینکی جاتی تو (بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے )وہ بھی زمین پر نہ گرتی بلکہ کسی نہ کسی انسان کے سر پر گرتی۔ (الاصابۃج۲ص۶۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

امام حسن کی اولاد

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی کثیر اولاد تھی،امام ابنِ جَوزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے آپ کے شہزادوں کی تعداد15 اور صاحبزادیوں کی تعداد 8 لکھی ہے۔ (المنتظم ج۵ص۲۲۵)جبکہ امام محمد بن احمد ذَہبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے 12 شہزادوں کے نام لکھے ہیں: حسن ،زید ،طلحہ ،قَاسِم، ابُو بَکْر اور عَبْدُ اللّٰہ ان چھ نے اپنے چچا جان سیّد الشُّہدا حضرت سیّدنا امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں جامِ شہادت نوش کیا۔ بقیہ چھ یہ ہیں: عَمْرو، عبد الرحمن ،حسین، محمد، یعقوب اور اسمٰعیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ حضرت سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی آل (یعنی حَسَنی سیدوں) کا سلسلہ حضرت سیِّدُناحسن مثنیٰ (مُ۔ثَنْ۔نا)اور حضرت سیِّدُنا زَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے چلا۔ (سیر اعلام النبلاء ج۴ص۴۰۱)

امام حسن کی منقبت

یا حَسن ابنِ علی! کر دو کرم
راکبِ دوشِ شہنشاہِ امم یاحَسَن ابنِ علی! کردو کرم!
فاطِمہ کے لال حیدر کے پِسَر! اپنی اُلفَت دو مجھے دو اپنا غَم
اپنے نانا کی مَحبّت دیجئے اور عطا ہو قلبِ مُضْطَر چشمِ نم
خُو مِٹے بے کار باتوں کی رہے لب پہ ذِکرُ اللّٰہ میرے دم بدَم
اے سخی ابنِ سخی اپنی سخا سے دو حصہ سیِّدِ عالی حَشَم
آل و اصحابِ نبی سے پیار ہے ساری سرکاروں کے در پر سر ہے خَم
پیشوائے نوجوانانِ بِہِشْت ہیں محمد کے نواسے لاجَرَم
یاحَسَن! ایماں پہ تم رہنا گواہ عبدِ حق ہُوں خادِمِ شاہِ اُمَم
آہ! پلّے میں کوئی نیکی نہیں عرصۂ محشر میں رکھ لینا بھَرَم
میرا دل کرتا ہے میں بھی حج کروں ہو عطا زادِ سفر چشمِ کرم!
طیبہ دیکھے اِک زمانہ ہوگیا یاحَسَن! دِکھلادو نانا کا حرم
جذبہ دو ’’نیکی کی دعوت‘‘ کا مجھے راہِ حق میں میرے جَم جائیں قدم
میں سدا دینی کُتُب لکھتا رہوں یاحسن! دے دیجئے ایسا قلم
دین کی خدمت کا جوش و وَلْوَلہ ہو عنایت یا امامِ مُحترم!
اے شہیدِ کربلا کے بھائی جان!
دُور ہوں عطّارؔ کے رنج و اَلَم
الفاظ ومَعانی: راکِب :سُوار۔دوش: کندھا۔ لال: بیٹا۔ پِسْر : بیٹا ۔مُضْطَر: بے قرار۔ چشمِ نَم: روتی آنکھ ۔ خُو: عادت۔ لَب :زبان۔ دَم بَدَم : ہر وقت۔ سَخا: سخاوت ۔عالی حَشَم : بہت بُزُرگی والا۔ خَم : جھکا ہوا۔ عرصۂ مَحشر: قِیامت کا میدان۔ بَھرَم : لاج ۔ سدا: ہمیشہ ۔ وَلْوَلہ : بہت زیادہ شوق ۔ اَلَم: غَم ۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x