کچھ دنوں سے امام احمد رضا اور شیعہ میں کافی بحث چل رہی ہے اس کے متعلق کہ اعلی حضرت کہیں سچ میں شیعہ ہیں یا نہیں اگر نہیں تو شیعوں جیسی باتیں کتب میں بھر بھر کہ اعلی حضرت نے لکھا ہے یہ بات سوچنے پرمجبور کردیتی ہے یہ بھی قابل غور بات ہے یہاں کچھ باتں عرض کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ملاحظہ فرمائیں
- امام احمد رضا اور شیعہ
- جناب احمد رضا کے آباء اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں۔
- بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے
- (3) انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔
- احمد رضا اور شیعی روایات
- احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا:
- پنجتن پاک
امام احمد رضا اور شیعہ
،،،۔ترتیب وپیشکش۔،،،
(((ا۔ع۔جامعیؔ)))
جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہوسکا کہ ان کے والد اور دادا کا شمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔ البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا۔
انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی’ تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
جناب احمد رضا کے آباء اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ان کاشجرہ نسب ہے:
احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی۔
( حیات اعلیٰ حضرت ص ٢)
بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے
امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔
عقیدہ اہلسنت سے وابستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اپنے ایک قصیدے میں لکھا ہے :
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک
لے کر یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ وبر
(حدائق بخشش جلد ٣ ص ٢٣)
(3) انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔
( فتاویٰ بریلویہ ص ١٤)
کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا’ جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کے لیے چند ایسے رسالے بھی تحریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔
شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہے’
جس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔ امام احمد رضا اور شیعہ میں کیا فرق سمجھ سکتے ہیں
احمد رضا اور شیعی روایات
جناب احمد رضا نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
مثلاً: “انّ علیّا قسیم النار۔” یعنی”حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔
(الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی ص ٥٨)
“انّ فاطمۃ سمّیت بفاطمۃ لانّ اللہ فمھا و ذریّتھا من النّار۔” اور “حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کردیا ہے۔
( ختم نبوت از احمد رضا ص ٩٨)
شیعہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا کہ اغواث (جمع غوث’ یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے
وہی ترتیب ملحوظ رکھی’جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔
( ملفوظات ص ١١٥)
احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا:
“جو شخص مشہور دعائے سیفی
(جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے) پڑھے’ اس کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔” دعائے سیفی درج ذیل ہے:
ناد علیّا مظھر العجا ئب تجدہ عونالّک فی النّوائب کلّ ھمّ وغمّ سینجلّی بولیتک یا علی یا علی
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارو جن سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔
تم انہیں مددگار پاؤگے۔
اے علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔
( الامن والعلی ص ١٢’١٣)
پنجتن پاک
اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا:
لی خمسۃ اطفی بھا حرّالوباء الحاطمۃ المصطفٰی المرتضٰی و وابناھما و الفاطمۃ
یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم ‘
علی رضی اللہ عنہ،
حسن رضی اللہ عنہ،
حسین رضی اللہ عنہ،
فاطمہ رضی اللہ عنہا!
( فتاویٰ رضویہ جلد ٦ ص ١٨٧) امام احمد رضا اور شیعہ
جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہے کہ :
“امام احمد رضا (شیعہ کے آٹھویں امام ) سے کہا گیا کہ کوئی دعا ایسی سکھلائیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کے وقت پڑھا کریں’
تو انہوں نے جواب دیا کہ قبر کے قریب جاکر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو السلام علیکم یا اہل البیت ‘
اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدا کے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے براء ت کرتا ہوں۔ امام احمد رضا اور شیعہ میں کچھ فرق نظر آتا ہے یا نہیں خود دیکھیں
( حیاۃ الموات درج شدہ فتاویٰ رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد ٤ ص ٢٤٩)
یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لئے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ تاکہ امام احمد رضا اور شیعہ دونوں کا رشتہ برقرار رہ سکیں
حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتیب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں: اس سے اور امام احمد رضا اور شیعہ کے متلعق معلوم ہوجائےگا
“تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بناکر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(ماخوذ از کتاب “بریلویت” مصنف علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ)
ان باتوں سے امام احمد رضا اور شیعہ جو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کا جواب دینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ حقیقت کیا ہے
اللہ تعالٰی ہمیں حق بات كہنے حق بات سننے اورحق بات قبول كرنے اور اس پر عمل کی توفيق عطا فرماےء اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے.
آمین یارب العالمین