یہاں اقوال خواجہ معین الدین پیشش کیے جارہے ہیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری غریب نواز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عشق کے پانچ درجات ہوتے ہیں
پہلا شریعت۔۔۔ یعنی جمال محبوب کی صفت سننا تاکہ شوق پیدا ہو
دوسرا طریقت۔۔۔۔یعنی محبوب کی طلب کرنا اور محبوب کے راہ پر چلنا
تیسرا حقیقت۔۔۔یعنی ہمیشہ محبوب کے خیال میں رہنا
چوتھا معرفت۔۔۔۔یعنی اپنی مراد کو محبوب کی مراد میں محو کر دینا
پانچواں وحدت۔۔۔یعنی اپنے فانی وجود کو ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ختم کردینا اور صرف محبوب ہی کی موجود مطلق جاننا ۔۔۔۔جب یہ پانچ مراتب پورے ہوجائیں تو کام ختم ہو جاتے ہیں اور صرف محبوب کا عشق باقی رہتا ہے عاشق اور معشوق کی موج بحر عشق میں فراق ہو جاتی ہے چنانچہ کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ وجود عشق کے درمیان ہے اور آخر بھی عشق سے خالی نہیں ہوتا ہے اور نا ہی عشق کے بغیر قائم و باقی رہ سکتا ہے بس اول و آخر ظاہر و باطن جو کچھ ہے عشق ہے
*حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ایک دفعہ میں حج کرنے گیا ، وہاں منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں مَیں نے ایک شخص کو دیکھا جو بلند آواز کے ساتھ بار بار پکار رہا تھا
لبیک لبیک لبیک اور غیب سے آواز آتی لا لبیک لا لبیک لالبیک, خواجہ غریب نوازؒ فرماتے ہیں کہ یہ سارا ماجرا دیکھ کر میں نے اس شخص کو بازو سے پکڑا اور بھرے مجمع سے باہر لے آیا اور پوچھا اے اللّٰہ کے بندے تجھے پتہ ہے کہ جب تو پکارتا ہے کہ اے میرے اللّہﷻ میں حاضر ہوں تو عالمِ غیب سے آواز آتی ہے نہیں تو حاضر نہیں ہے تو وہ شخص بولا ہاں معین الدینؒ میں جانتا ہوں اور یہ سلسلہ پچھلے 24 سالوں سے جاری ہے یہ میرا چوبیسواں حج ہے وہ بڑا بے نیاز ہے میں ہر سال یہی امید لیکر حج پر آتا ہوں کہ شاٸد اس دفعہ میرا حج قبول ہو جاۓ لیکن ہر سال ناکام لوٹ جاتا ہوں سرکارؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ ہر بار ناکامی ،اور نامرادی کے باوجود تو پھر کیوں چلا آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ اور وہ رُندھی ہوٸی آواز میں گڑگڑاتے ہوۓ بولا۔
اے معین الدینؒ تو بتا میں یہاں نہ آٶں تو کدھر جاٶں اللّٰہﷻ کے سوا میرا کون ہے؟ میری باتیں سننے والا ہےکون؟ میرے گناہ معاف کرنے والا ہے کون ؟میری مدد کرنیوالا کون ہے؟ میں کس در پہ جا کر گڑگڑاٶں؟ کون میری دادرسی کرے گا؟ ، کون میرا خالی دامن بھرے گا؟ ،کون مجھے بیماری میں شفا دے گا؟ ،کون میرے گناہوں کی پردہ داری کرے گا؟ ،معین الدینؒ مجھے بتا اگر کوٸی دوسرا رب ہے تو بتا میں اسکے پاس چلا جاتا ہوں، مجھے بتا معین الدینؒ اسکے علاوہ اگر کوٸی در ہے تو میں وہاں جاٶں روٶں اور گڑگڑاٶں، سرکارؒ فرماتے ہیں اسکی باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ ، جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور میں نے اپنے لرزتے ہاتھ بارگاہِ خداوندی میں دعا کیلیے اٹھاۓ اور کپکپاتے ہونٹوں سے ابھی صرف اللّہﷻ کو پکارنا شروع ہی کیا تھا کہ غیب سے آواز آٸی اے معین الدینؒ یہ ہمارا اور اس کا معاملہ ہے تو پیچھے ہٹ جا تم نہی جانتے کہ مجھے اسکا اس طرح گڑگڑا کر لبیک لبیک لبیک کہنا کتنا پسند ہے، اگر میں اسکے لبیک کے جواب میں آج ہی لبیک کہدوں اور اسے یہ یقین ہو جاۓ کہ اسکاحج قبول ہو گیا ہےتو وہ آٸیندہ حج کرنے نہیں آٸیگا اور یہ سمجھتا ہے کہ اسکا حج قبول نہیں ہو رہا، اے معین الدینؒ پچھلے 23 سالوں سے جتنے بھی لوگوں کے حج قبول ہوۓ ہیں وہ سب اس کی لبیک لبیک لبیک کی بدولت ہی قبول ہوۓ ہیں یہ میرا بڑا ہی محبوب بندہ ہے۔
سبحان اللّٰہﷻ سبحان اللّٰہﷻ
(اللّٰہ کے محبوب بندے 71)
یہ نصیحت ہے ان لوگوں کیلیۓ جو گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ اور صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور منزل تک پہنچتے پہنچتے رہ جاتے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ پتہ نہیں اللّٰہﷻ کو تمہاری کون سی ادا پسند ہے ۔..