امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللّه تعالی علیہ اپنے دور کے سب سے بہترین شعرا میں سے تھے اعلی حضرت کی شاعری میں جہاں توحید کا بول بالا ہے وہیں نبی کی محبت کی بہترین جھلک اور ہندوستان کے شاعروں کی شاعری میں وہ بات نہیں جو صفر اعلی حضرت کی شاعری میں ملےگی اسی لیے یہاں امام احمد رضا خان کی شاعری کی کچھ جھلک پیش کررہا ہوں تاکہ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے کہ اعلی حضرت کے اشعار کی قیمت کیا ہے اسی لیے اعلی حضرت کو 110 سے زائد بہترین القابات عطا کیے گئے ہیں جس کو پڑھ کر انسان کو یقین آجاتا ہے
اعلی حضرت کی شاعری کی مثال
۱۔ جید شعرا میں ایک غزل میں سب سے زیادہ حسن مطلع کہنے کا اعزاز جگر مراد آبادی صاحب کے پاس ہے ۔ ایک غزل میں آٹھ حسن مطلعے ۔ اور احمد رضا خان صاحب نے ایک غزل ،
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
، تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
میں 46 مطلعے کہے ۔ اور 90 سے زیادہ قافیے استعمال کئے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک خیال دوبارہ نہ آیا اور تمام اشعار فنی محاسن میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ یہ ہے اعلی حضرت کی شاعری کی ایک جھلک
2. بحر وافر سالم ۔ مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن کو عربی بحر سمجھا جاتا تھا ۔ اور اس میں میر سے غالب اور غالب سے داغ تک کسی استاد شاعر کی کوئی قابل ذکر غزل دیکھنے میں نہیں آتی ۔ لیکن احمد رضا بریلوی صاحب نے
زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لئے
چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لئے
اسی کے متعلق تاج الشریعہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کرامت ہے
والا کلام لکھ کر اس بحر کو نئی زندگی دی اور اعلی حضرت کی شاعری نے لوگوں کو یہ بتا دیا کہ یہ کوئی عام شاعری نہیں ہے ۔ یہ نعت پڑھنے کے قابل ہے ۔ اس وقت کی نامانوس بحر میں کیا موسیقیت ڈالی ہے ۔
جناں میں چمن، چمن میں سمن، سمن میں پھبن ، پھبن میں دلہن
سزائے محن ، پہ ایسے منن، یہ امن و اماں تمہارے لئے۔
یوں ہی لاکھوں لوگ منقبت اعلی حضرت نہیں گنگنا رہے ہیں بلکہ انھوں نے ایسا کام ہی کیا ہے
ملک سُخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گۓ ہو سکے بٹھا دیۓ ہیں
اعلی حضرت کی شاعری اور کچھ اہم باتیں
امامِ اہلِ سنت، آقائے نعمت، کنزُ الکرامت؛ مظہرِ غوثیت، مجسمہ کشف و کرامت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی ( متولد ۱۸۵٦ ء۔ متوفی ۱۹۲۱ ء) ایک صاحبِ بصیرت مفسرِ قرآن، وسیع المطالعہ محدث جلیل اور بلند پایہ فقیہِ اسلام تھے۔ اعلی حضرت کی شاعری بھی الگ ہوا کرتی ہے عشقِ رسول آپ کا سرمایۂ حیات تھا۔ جس کا عملی نمونہ آپ کی پوری زندگی اور آپ کا کردار و عمل تھا۔ اپنی نعتیہ شاعری کو آپ نے اپنے جذبۂ عشقِ رسول کا ذریعۂ اظہار بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مخلص داعی و مصلح اور دیدہ ور قائد کی حیثیت سے آپ نے کئی اہم مسائل و معاملات میں مسلمانانِ ہند کی بر وقت رہنمائی کی جس کے وسیع و ہمہ گیر اثرات و نتائج برآمد ہوۓ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف برِصغیر ہند و پاک نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں آج آپ کے اُن افکار و ہدایات اور ارشادات و تعلیمات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ جن کا رشتہ اپنے اسلاف و اکابر و ائمہ و فقہائے اسلام سے وابستہ ہے اور ان کے ذریعہ تابعین و صحابۂ کرام اور رسولِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک وہ سلسلہ بہ سلسلہ منسلک ہیں۔ امامِ اہلِ سنت ہر اس فتنے کا تعاقُب کیا جس سے اسلام و ایمان کو کچھ بھی خطرہ لاحق ہو۔ متوقع خطرات کو پہلی ہی نظر میں اپنی مومنانہ بصیرت کے ذریعہ بھانپ لیا کرتے تھے اور ان سے تحفظ کی مناسب تدابیر اختیار کرتے تھے۔ جدید افکار و تحریکات کے سبھی گوشوں کو مدِنظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ فرماتے۔ اس لیے وہ مدت العمر اپنے موقف پہ جبلِ مستقیم کی طرح جمے رہے اور کبھی انہیں بعض دوسرے اصحابِ علم اور دانشورانِ قوم و ملت کی طرح تبدیلیِ رائے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ ان کے شرعی فیصلے وقتی جذبات اور عارضی اسباب و محرکات کی نذر نہیں ہوۓ بلکہ ان کا ہر فیصلہ، ان کی ہر بات اور ان کا ہر قدم سنت کی اتباع اور شریعت کی راہ پر تھا۔ انہوں نے دین مذہب کے فکر و مزاج کے ساتھ استقلال و استقامت کا ہمیشہ ثبوت دیا اور ان سے ایک لمحہ کے لیے بھی انحراف نہیں کیا کیوں کہ تمسک بالدین ان کا جوہرِ امتیاز تھا۔۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلاف کے مسلک و منہج کی مدلل انداز میں ترجمانی و نمائندگی کی۔ آپ نے اپنے عہد میں نو پید فتنوں کا علمی محاسبہ کیا۔ ان پر شرعی حکم عائد کر کے سرمایۂ ملت کی نگہ بانی کی۔ آپ کی ذات اہلِ حق کی پہچان اور سنیت کا معیار بن گئی ہے۔ آپ کی خدماتِ علمیہ دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں کا محور و مصدر ٹھہریں۔ آج عالم یہ ہے کہ جہانِ علم و فضل میں کارِ رضا، فکرِ رضا ، یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی دھوم ہے۔ خاص کر اعلی حضرت کی شاعری میں ایک الگ ہی پہچان ہے ہر بزم میں اعلیٰ حضرت کا چرچا ہے۔ ہر فن کی بلندی پر فکرِ رضا کا علم لہرا رہا ہے ۔ ہر جہت میں کارِ رضا کی گونج ہے۔ ہر گلشن میں بریلی کے گلِ ہزارہ کی خوشبو ہے۔ اعلی حضرت کی شاعری
وادی رضا کی کوہِ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھۓ وہ علاقہ رضا کا ہے
اوروں نے تو بہت لکھا ہے علمِ دین پر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
اللہ تعالیٰ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض وبرکات سے اعلی حضرت کی شاعری ہم سب کو مالا مال فرماۓ آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔۔ طالب دعا حقیر سراپا تقصیر، فقیر و بے توقیر محمد ماہر القادری دار العلوم افکار حق انوار القرآن مہالنگپور ضلع باگلکوٹ کرناٹک
مذکورہ تحریر سے معلوم ہوگیا کہ اعلی حضرت کی شاعری کی اہمیت کیا ہے اور اس کا مقام کیا ہے امید ہے یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہوگی