اعلی حضرت کا مشہور کلام پر علما کی بےبسی

پھپھوند شریف میں ایک ملاقات کے دوران شہیدِ بغداد مولانا اسید الحق قادری بدایونی نے مجھے اپنا وہ کلام سنایا جو اعلی حضرت کا مشہور کلام “یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں” کے طرز پر انھوں نے لکھا تھا.

جس وقت یہ کلام انھوں نے مجھے سنایا تھا اس وقت ان کا یہ کلام بغیر ‘مطلع’ کے تھا. اور غالباً ایک ماہنامے کے کسی شمارے میں اسی طرح شائع بھی ہو چکا تھا.

اعلی حضرت کا مشہور کلام

میں نے کہا : اس کا مطلع کیوں نہیں ہے؟

کہنے لگے : بہت غور کیا مگر اس کا مطلع مجھ سے نہیں بن سکا. اعلی حضرت نے پہلے مصرعے کے نصفِ اول میں “رخ” “دن” “ہے” “یا” “مہرِ” “سما” یعنی 6 الفاظ استعمال کیے ہیں. ان میں “ہے یا” مجھے بھی رکھنا لازم ہے. اب بچے چار الفاظ تو ان میں “ہے” سے پہلے 2 لفظ ہیں جو دونوں 2 حرفی ہیں. اور “یا” کے بعد 2 لفظ ہیں اور دونوں 3 حرفی ہیں. تین حرفی الفاظ تو مل رہے ہیں مگر “ہے” سے پہلے 2 حرفی 2 لفظ لانا ہے. یہ مجھ سے نہیں ہو سکا. *یہ “مولانا”(اعلی حضرت) ہی کا حصہ تھا.* اور اعلی حضرت کا مشہور کلام پر

بعد میں مولانا بدایونی نے اپنے کلام میں مطلع کا اضافہ فرمایا. وہ مطلع یہ ہے:

رخ مہر ہے یا مہ لقا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں.

ہاں! حسنِ روئے مصطفیٰ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں.

مگر غور کیا جائے تو اب بھی تین بنیادی فرق پائے جا رہے ہیں: اعلی حضرت کا مشہور کلام پر

1- مولانا بدایونی کے مطلع میں “ہے” سے پہلے 2 حرفی 2 لفظ نہیں ہیں، بلکہ ایک لفظ 2 حرفی ہے تو ایک 3 حرفی. !!

2- اعلی حضرت کے دوسرے مصرعے میں “شب زلف یا مشکِ ختا” کا طرز بھی مولانا بدایونی کے دوسرے مصرعے میں نہیں ہے.

3- اعلی حضرت کا پہلا مصرع “رخِ انور” کے بارے میں ہے تو دوسرا مصرع “زلفِ معنبر” کے بارے میں. مگر مولانا بدایونی مطلعے کے دونوں مصرعوں میں صرف “رخ انور” ہی کی بات کر رہے ہیں.

تکمیلِ کلام کے لیے اگرچہ بعد میں مولانا نے مطلع لکھ دیا. مگر آج بھی جب ان کا یہ کلام مَیں دیکھتا ہوں تو مطلعے کے بارے میں کہا گیا ان کا وہ جملہ یاد آ جاتا ہے :

*”یہ ‘مولانا’ ہی کا حصہ تھا”* !!!

یہ ہے اعلی حضرت کا مشہور کلام اور اس کی شان

✍ نثار مصباحی

1 ربیع الآخر 1442ھ

5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x