اعلی حضرت کو دنیا جانتی ہے لیکن اعلی حضرت کا حسن سلوک کیا ہے اس کے متعلق بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کیوں کہ حسن سلوک ہم لوگوں کے اندر یہ چیز نہیں ہے اخلاقیات میں ہم لوگ زیرو ہیں اسی لیے اعلی حضرت کا حسن سلوک کیا تھا غیروں کے ساتھ اس بات کو سمجھیں تاکہ حسن سلوک کا مطلب سمجھ میں آئے
اعلی حضرت کا حسن سلوک
تحریر: سید آصف رضا (ناربل)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۵۶ء-۱۹۲۱ء) بریلی شریف اُتر پردیش میں پیدا ہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت مفسر، محدّث، نعت گو شاعر اور علوم نقلیہ و عقلیہ کے ماہر عالم دین تھے۔ آپؒ نے کثرت سے فقہی مسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپؒ نے ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائینس کے دیگر کئی موضوعات پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔آپؒ کی مشہور تصانیف میں ترجمہ قرآن ”کنز الایمان“، 33 اور جب فتاوی کی دنیا میں آپ نے قلم اٹھایا تو ایک دو نہیں بلکہ جلدوں پر مشتمل ”العطایا النبویه فی الفتاوی الرضویه“ (فتاویٰ رضویہ) لکھ ڈالااور نعتیہ کلام کا مجموعہ ”حدائق بخشش“ شامل ہیں۔ آپؒ نے بریلی شریف میں منظر اسلام کے نام سے ایک جامعہ قائم فرمائی۔ اب سمجھتے ہیں اعلی حضرت کا حسن سلوک کے متعلق
آپؒکے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ”الملفوظ کامل“ نام سے آپؒ کے ملفوظات کو چار جلدوں میں جمع کیا۔ محمد شہاب الدین رضوی (ایڈیٹر سنی دنیا بریلی) رقمطراز ہیں: ”جامع الملفوط مفتی اعظم قدس سرہٗ کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ مجلس میں بیٹھنے والے کسی سائل کے سوال کو عرض اور امام احمد رضاؒ کے جواب کو ارشاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ……… الملفوظ کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس میں صوفیاء کرام کا تصوّف بھی ملے گا اور علماء عظام کا تتبع بھی، مؤرخین کی تحقیق بھی ملے گی اور سیاحوں کے اسفار بھی، فقہاء کی فقاہت بھی ملے گی اور محدّثین کی حدیث بیانی بھی، مصلحین کا کردار بھی ملے گا اور مبلغین کے کارنامے بھی۔ …….. مطالعہ کرتے وقت کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوال سائل کر رہا ہے اور امام احمد رضا بریلویؒ اس کا جواب دے رہے ہیں گویا کہ قاری اپنے آپ کو امام احمد رضاؒ کی مجلس میں بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہے۔“ اور وہاں اعلی حضرت کا حسن سلوک دیکھا جاتا تھا
(الملفوظ کامل، ص: ۲۹)
یہ سمجھنے کی بات ہے اعلی حضرت کا حسن سلوک کتنا عمدہ رہا ہے دیوبندی کے ساتھ بھی
الملفوظ کامل (حصہ اوّل) میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کا دعوتِ دین کے بارے میں ایک ارشاد نقل کیا گیا ہے جو داعیانِ حق کے لئے مشعل راہ ہے اور ساتھ ہی اس ارشاد سے اعلیٰ حضرتؒ کے بارے میں ”حریفوں“ کی جانب سے ”متشدد“ کے الزام کی بھی تردید ہوتی ہے: اب دھیان دینے کی بات ہے اعلی حضرت کا حسن سلوک
”دیکھو نرمی کے جو فوائد ہیں وہ سختی میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر اس شخص سے سختی برتی جاتی تو ہر گز یہ بات نہ ہوتی۔ جن لوگوں کے عقائد مذبذب ہوں ان سے نرمی برتی جائے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں۔ یہ جو وہابیہ میں بڑے بڑے ہیں ان سے بھی ابتداءً بہت نرمی کی گئی مگر چونکہ ان کے دلوں میں وہابیت راسخ ہو گئی تھی اور مصداق ثم لا یعودون حق نہ مانا اس وقت سختی کی گئی کہ رب عزّ و جل فرماتا ہے: یٰاَیُّھَا النَّبِیُ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ (اے نبیﷺ! جہاد فرمائو کافروں اور منافقوں پر اور ان پر سختی کرو) اور مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے: ولیجدوا فیکم غلظۃ (لازم ہے کہ وہ تم میں درشتی پائیں)۔ اب سمجھیں اعلی حضرت کو اعلی حضرت کا حسن سلوک کیوں ایسا رہا ایک شخص خدمت اقدس حضور سرور عالم ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! میرے لئے زنا حلال فرما دیجیے۔ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے انہیں قتل کرنا چاہا کہ خدمت اقدس میں حاضر ہو کر یہ گستاخی کے الفاظ کہے۔ حضور ﷺ نے منع فرمایا اور ان سے فرمایا :قریب آو، وہ قریب حاضر ہوئے اور قریب فرمایا یہاں تک کہ ان کے زانو زانوئے اقدس سے مل گئے۔ اس وقت ارشاد فرمایا: کیا تو چاہتا ہے کہ کوئی شخص تیری ماں سے زنا کرے ؟ عرض کی نہ۔ فرمایا تیری بیٹی سے؟ عرض کی نہ۔ فرمایا تیری بہن سے؟ عرض کی نہ۔ فرمایا کہ جس سے تو زنا کرے گا آخر وہ بھی کسی کی ماں یا بیٹی یا بہن یا پھوپی یا خالہ ہوگی یعنی جو بات اپنے لئے نہیں پسند کرتا دوسرے کے لئے کیوں پسند کرتا ہے؟ دست اقدس ان کے سینہ پر مار کر دعا فرمائی کہ الٰہی زنا کی محبت اس کے دل سے نکال دے۔ وہ صاحب کہتے ہیں: جب میں حاضر ہوا تھا تو زنا سے زیادہ محبوب میرے نزدیک کوئی چیز نہ تھی اور اب اس سے زیادہ کوئی چیز مجھے مبغوض نہیں ۔ اس کے بعد حضور سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ میری تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا لوگ اسے پکڑانے کو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں، جتنا دوڑتے ہیں وہ زیادہ بھاگتا ہے۔ اس کے مالک نے کہا تم لوگ ٹھہر جائو اس کی راہ میں جانتا ہوں۔ سبز گھانس کا ایک مٹھا لے کر چمکارتا ہوا اونٹ کے قریب گیا اور اسے پکڑ لیا اور بٹھا کر اس پر سوار ہو لیا ۔ فرمایا: اس وقت اگر تم اسےقتل کر دیتے تو جہنم میں جاتا۔“
(الملفوظ کامل، ص: ۶۵-۶۴)
یہ سمجھنے کی بات ہے اعلی حضرت کا حسن سلوک کیسا تھا غیروں کے ساتھ لیکن آج کل بالکل اس کا برعکس ہورہا ہے
اُن حضرات کے لئے لمحۂ فکریہ جو سوشل میڈیا پر اور دوسرے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہی ہم عقیدہ اور ہم مسلک علماء (خصوصاً شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری) کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں اعلی حضرت کا حسن سلوک ہم لوگ بھلا بیٹھے ہیں اور پھر امام اہلسنت اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں!
تحریر دو سال پرانی ہے اور میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے. اس تحریر کو حذف و اضافہ کے ساتھ شئیر کرنے کا مقصد محض توجہ دلانا ہے اور یہ بتانا ہے کہ اعلی حضرت کا حسن سلوک کیسا تھا اور ہم لوگوں کو بھی اعلی حضرت کی طرح حسن سلوک کرنا چاہیے