مدینہ طیبہ میں گنبد خضری کے سامنےپہلے کجھور کے درخت ہوا کرتے تھے، اعلی حضرت کا ادب اس میں دیکھنے کو ملےگا جس سے معلوم ہوگا کہ اعلی حضرت کو اپنے آقا سے محبت کتنی تھی
اعلی حضرت کا ادب شاعری میں
اس منظر کو دیکھتے ہوئےاردو کے بلند پایہ شاعر اطہر ہاپوری نے ایک نعت لکھ کر اعلحضرت کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع یہ تھا
کُب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے
مجنوں کھڑے ہیں خیمہٴ لیلیٰ کے سامنے
یعنی :حضور کے روضہ پاک کےسامنےکجھور کے درخت اس طرح قائم ہیں گویا خیمہ لیلی کے سامنے مجنوں کھڑا ہو
شاعر نے گویا کجھور کے درختوں کو عاشق قرار دیا کہ کجھورکے درخت بھی روضہ پاک کے ایسے عاشق ہیں جیسے مجنوں لیلی کا عاشق ہے، جس طرح مجنوں لیلی کی محبت میں خیمہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے اسی طرح یہ درخت بھی روضہ پاک کے سامنے کھڑے رہتے ہیں
اس شعر کو لکھ کر شاعر بھی خوش تھا اور دوسرے لوگ بھی کہ
کمال کا شعر لکھ دیا کہ مدینے کے کجھور کو بھی روضہ پاک کا عاشق قرار دیا۔۔۔
مگر امامِ عشق و محبت جلال میں آئے اور ناراضگی کا اظھار فرمایاکہ دوسرا مصرعہ مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے، کیونکہ گنبد خضری کو خیمہ لیلی سے تشبیھ دی گئی ہے، کہاں روضہ پاک اور کہاں خیمہ لیلی پھر آپ نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی ہے اور اس دوسرے مصرعہ کو انتہائی ادب والے مصرعہ سے تبدیل فرمایا کہ
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلّٰی کے سامنے
یعنی: حضور کے روضہ انور کے سامنے کجھور کے درخت اس طرح سے قائم ہیں، جیسے قدسی فرشتے عرش معلی کے سامنے کھڑے ہیں۔۔۔
اللہ اکبر اللہ اکبر یہ ہے اعلی حضرت کا ادبدربار رسالت کے متعلق