اعلی حضرت میدان تصوف کے بدر کامل

امام احمدرضا:آسمانِ تصوف کے بدرکامل: اعلی حضرت میدان تصوف کے بہترین بدر کامل کیوں اس کی مکمل وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی جائےگی اسی لیے عرس اعلی حضرت کے موقع پر ضرور پڑھیں

ڈال دی قلب میں عظمتِ مصطفیٰ،
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام۔

اعلی حضرت میدان تصوف

امام اہل سنت ،مجدد دین و ملت ،آیة من آیات اللہ ،معجزة من معجزاتِ رسول اللہ ،قطب الارشاد،اعلیٰ حضرت علیٰ الاطلاق امام احمدرضا قادری برکاتی محدث بریلوی قدس سرہ القوی کی ولادت باسعادت ١٠ شوال المکرم ١٢٧٢ھ بروز شنبہ بوقت ظہرمطابق 14جون 1856ع کو بریلی شریف محلہ جسولی میں ہوٸی۔
پیداٸشی نام “محمد “اور تاریخی نام “المختار ” ہے ۔جدامجد حضرت مفتی رضاعلی خاں علیہ الرحمة نے آپ کا نام” احمد رضا ” رکھا،بعد میں آپ نے” عبد المصطفیٰ” کا اضافہ فرمایا۔
آپ نے اپنی ولادت کا سن ہجری آنے والی آیہ ٕکریمہ سے خود مستنبط کیا ہے : “اولٰٸِکَ کتب فی قلوبِھم الایمانَ وَ ایّدَھُم بروحٍ منہُ ط” (یہ ہیں وہ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا۔اور اپنی پسندیدہ روح سے ان کی مدد فرماٸی۔)۔ اعلی حضرت میدان تصوف میں بھی دیکھیں

آپ نےچار سال کی چھوٹی سی عمر میں قرآن کریم ناظرہ مع تجوید ختم کیا ۔ابتداٸی و اعلیٰ تعلیم اپنے والد ماجد اور دیگر علماو مشایخ مثلاً حضرت علامہ سید اٰل رسول مارہروی،شیخ احمد زینی دحلان مکی،شیخ عبد الرحمٰن مکی،شیخ حسین صالح مکی ، علامہ عبد العلی رام پوری، حضرت شاہ سید ابو الحسین احمد نوری ، جناب مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیھم الرحمہ سے مکمل کی ۔بعض علوم و فنون پر آپ نے اپنے مطالعہ اور اپنے کسب و ذھانت سے ملکہ حاصل کیا ۔

تیرہ سال دس ماہ کی عمر میں آپ نےعلوم اسلامیہ ،فنون عقلیہ و نقلیہ اور معارف ادبیہ کی تحصیل و تکمیل سے فراغت حاصل کی اور ١٤ شعبان المعظم ١٢٨٦ھ میں دستار علم و فضل کو اعزاز بخشا اور اسی دن سے افتا کے کام کا بھی آغاز کردیا۔

تمام عمر درس و تدریس،افتا و قضا،تصنیف و تالیف،رشدو ہدایت،احقاق حق و ابطال باطل،دعوت و تبلیغ،رد بدعات و منکرات،نصیحت و موعظت،اتباع سنت و پابند شریعت،عشق رسول و احترام رسول ،تعظیمِ اھل بیت و صحابہ،توقیرِسادات و صلحا،آداب اکابر و شفقت اصاغر ،ترویج شریعت و حمایت مسلک اہل سنت و جماعت ،حفاظت دین متین و محافظ شریعت مبین،تجدید دین و ملت اور احیاۓ سنت میں بسر ہوٸی۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ حب اللہ ﷻو حب رسول اللہ ﷺکے پیکر مجسم ،اسلامی افکار و نظریات کا ناشر،عشق رسالت میں کامل، بحرعلوم و معارف کا غواص، فقہا کے سردار، تصوف و طریقت کے رازداں، علماۓ شریعت و طریقت کے مرجع،علوم قدیمہ و جدیدہ کے ماہر، اسلاف کرام کا اعلیٰ نمونہ، پیکر زہد و تقویٰ ، فراٸض وواجبات اور سنن و مستحبات پر محافظ،اشدا ٕ علیٰ الکفار و رحما ٕ بینھم کی سچی تصویر، زبان و قلم کا سلطان ، محققین کا پیشوا، مدققین کا رہنما، نادر زمن ، وحید العصر، اصحاب تصوف کے رہنما، مناطقہ و فلاسفہ کا رہبر، ساٹھ سے زاٸد علوم و فنون کے ماہر،ہزاروں کتب کے مصنف ،ولٸ کامل ،عارف کامل ،فنافی اللہ و فنا فی الرسول ،ناٸب غوث اعظم ،یادگار بوحنیفہ، کرامت مارہرہ،مصلح امت،صاحبِ عزیمت واستقامت، غواص بحر معرفت ،محی السنة،یکتاۓ روزگار اور مجدد دین و ملت (وغیرہ) تھے ۔المختصر رب قدیر جل جلالہ اپنے فضل و کرم سے ان تمام صفات و خصوصیات کو سیدی اعلیٰ حضرت کو عطا فرمایا جو ایک ولٸ کا مل اور مجدد اعظم میں ہونی چاہٸیں۔

” ذٰلک فضل اللہ یُوتیہ من یّشآ ُٕ۔“
امام احمدرضا فاضل بریلوی قدس سرہ کو جس حیثیت و جس جہت سے دیکھا جاۓ وہ اس میں ماہر اور امام نظر آتے ہیں ۔
کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
لیس علی اللہ بمستنکر ، ان یجمع العالم فی واحد۔
آپ نےبھی تحدیث نعمت کے طور پر یاداغ دہلوی نےعمدہ کہاہے :
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم،
جس سمت آگٸے ہو سکّے بٹھا دیٸے ہیں۔
کسی عاشق نے بھی عمدہ کہا ہے :
وادی رضا کی کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضا کا ہے ۔
” فسبحان من وھبہ ذٰلک “.

علوم و معارف میں آپ کی عبقریت و تبحر علمی کو اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی مانا ہے۔چناں چہ جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ تأثر ملاحظہ فرماٸیں: ” حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمدرضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں ۔ان کی بعض تصانیف اور فتاوی کے مطالعے کےبعد اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ جو علمی گہراٸی میں نے ان کے یہاں پاٸی ہے وہ بہت کم علما میں پاٸی جاتی ہے اور عشق خداو رسول تو ان کے سطر بہ سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔”[ ارمغان حرم ،مطبوعہ لکھنٶ]۔
دوسرے دیوبندی عالم کا تأثر بھی ملاحظہ ہو ، مولوی سید محمد یوسف شاہ بنوری کے والد مولوی سید زکریا شاہ بنوری پیشاوری کا تأثر ہے :
” اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ہندوستان میں احمدرضا خاں بریلوی کو پیدا نہ فرماتا تو ہندوستان میں حنفیت ختم ہوجاتی ۔[امام احمدرضا کی فقہی بصیرت ۔مطبوعہ: دارالقلم دہلی ص : ٣٢]۔۔۔

{ الفضل ما شھدت بہ الاعدا ٕ.}۔

اعلی حضرت میدان تصوف پر کتب

سر دست سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی عظیم دینی و روحانی خدمات اور تجدیدی و تحقیقی کارناموں میں سے صرف تصوف و طریقت کی جہت سے ان کی زرین خدمت،تجدیدی کارنامہ ، ولایت و معرفت پر ان کا درجہ ٕ کمال
اور طریقت و معرفت کے اسرار و رموز پر ان کی مہارت و رہنماٸی کا جاٸزہ اختصارًا پیش کیا جارہا ہے :
سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ایک عظیم مجدد،بے لوث مبلغ،محدث،فقیہ،مفسر،قاٸد وامام ہونے کی حیثیت سے جہاں شریعت مطہرہ کے ہر پہلو میں تحریر و تقریراور دعوت و تبلیغ کے ذریعے رہنماٸی کا فریضہ انجام دیا ہے وہیں آپ ایک عظیم صوفی ،ولٸ کامل ،مرشد اور عارف ربانی ہونے کی حیثیت سے سلوک و طریقت کے مساٸل میں بھی رہبری کا حق ادأفرمایاہے۔آپ نے پچاس سے زاٸد علوم و فنون میں ایک ہزار سے زاٸد کتابیں تصنیف کیں،ان میں علوم تصوف ،اسرار طریقت ،رموز معرفت و حقیقت پر بھی جامع و رہنماکتب و رساٸل تحریر کی۔سلوک واخلاق اور تصوف و طریقت پر بھی آپ کی دودرجن سے زاٸد کتب و رساٸل موجود ہیں،جن میں سے چند کے اسما یہ ہیں :
(١) مقال عرفا باعزاز شرع و علما ٕ
(٢) التلطف بجواب مساٸل التصوف۔
(٣) الیاقوتة الواسطة فی قلب عقد الرابطة۔
(٤) نقا ٕ السلافة فی البیعة و الخلافة ۔
(٥) کشف حقاٸق و اسرار دقاٸق
(٦) شرح الحقوق لطرح العقوق (٧) مشعلة الارشاد الیٰ حقوق الاولاد۔
(٨) الزمزمة القمریة فی الذب عن الخمریة۔
(٩) الزبدة الزکیة لتحریم سجود التحیة۔
(١٠) جمل النور نھی النسا ٕ عن زیارة القبور۔
(١١) ماقل و کفی من ادعیة المصطفی۔
ٰ ( ١٢) حاشیة کتاب الزواجر ۔وغیرہ ۔
فتاوی رضویہ،الملفوظ اور حداٸق بخشش میں جابجا سلوک و اخلاق اور تصوف وطریقت کے رہنمااصول و مساٸل اور رموز واسرارموجود ہیں۔آپ نے تصوف و طریقت کے نام پر گمراہی و بد عملی پھیلانے والوں کی نشان دہی فرماکر ان کی اصلاح بھی فرماٸی ،بعض خانقاہوں میں راٸج غیر شرعی رسوم کی جرأت مندانہ اصلاح کی،طریقت کو شریعت سے الگ سمجھنے والوں کی بھی بھر پور خبرلی اور ایسوں کے لیے رہنما اسلامی اصول کی تفہیم و توضیح فرماٸی۔قوالی مع مزامیر اور مروجہ تعزیہ داری کی بھی شریعت کی روشنی میں وضاحت فرماٸی۔
سلوک و اخلاق اور تصوف کے اہم عناصر: مثلاً : توبہ، اخلاص، زہد ،ورع،صبر،رضا،توکل،محبت،مشاہدہ و یقین،قناعت،ذکر و مراقبہ،تزکیہ ٕ نفس ،تصفیہ ٕ قلب ،سماع ،وجد،مراقبہ ،فنا ،بقا،مجاہدہ و ریاضت،حق العین و عین الیقین،وحدة الوجود،تواضع ومحاسبہ ٕ نفس،فلاح ظاہر،فلاح باطن،فلاح تقویٰ،فلاح احسان،بیعت و ارادت اورحقیقت و معرفت وغیرہ کی عمدہ توضیح و تنقیح اپنی کتابوں میں تحریر کی ،بلکہ بعض غلط تعبیر و تشریح کی اصلاح بھی فرماٸی ۔
امام احمدرضا قدس سرہ کی کتب تصوف میں سلوک کے رموز و اسرار،تصوف وطریقت کے غوامض و دقاٸق اور ولایت و معرفت کے مدارج و مساٸل پر انمول تحقیقات و توضیحات اورعمدہ تطبیقات کے ایسے نمونے و گوشے ملتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر یقیناً ان کا اکابر صوفیا و اولیا میں نمایاں مقام پر فاٸز ہونا ظاہر ہوجاتا ہے اور یہ بات خود بخود ذھن و دماغ اور دل کی گہراٸیوں میں اتر جاتی ہے کہ امام احمدرضا قدس سرہ جہاں شریعت اسلامیہ کےعظیم محقق، پیشوا،مقبول ومستند فقیہ،علماے عرب و عجم کے مایہ ٕ ناز امام اور متفق علیہ مجدد تھے وہیں طریقت کے بھی عظیم مرشد ،ولٸ کامل،صوفٸ صادق اور مخلص رہبر و امام بھی تھے۔
” فسبحان من وھبہ ذٰلک “۔

مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمة والرضوان نےکیا ہی خوب لکھاہے، ع :
جو مرکز ہے شریعت کا مدار اہل طریقت کا
جو محور ہے حقیقت کا وہ قطب الاولیا تم ہو ۔

ہیں سیّارہ صفت گردش کناں اہل طریقت یاں
وہ قطب وقت اے سرخیل جمعِ اولیا تم ہو ۔

اخیر میں سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی روحانیت و ولایت سے متعلق دو تأثر تحریر کی جارہی ہیں ،ملاحظہ فرماٸیں :
استاذ گرامی حضرت علامہ احمد مصباحی صاحب دام ظلہ اپنی کتاب “امام احمدرضا اور تصوف “میں رقمطراز ہیں :
“سیدنا محدث سورتی مولانا وصی احمد صاحب استاذِ صدرالشریعہ علیہما الرحمة والرضوان جو اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے عمر میں بیس سال بڑے تھے۔مولانا محمد اسحاق محشی بخاری علیہ الرحمة کے تلمیذِ حدیث اورحضرت مولانا فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ کے مرید رشید تھے۔وہ اعلیٰ حضرت سے حصول فیض کا اعتراف کچھ عجب انداز میں کرتے ہیں جو ان کی عالی ظرفی کے ساتھ امام احمدرضا قدس سرہ کا مقامِ بلند بھی بتاتاہے۔حضرت محدث سورتی کے آخری شاگردحضرت مولانا سید محمد صاحب کچھوچھوی محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنے استاذ گرامی حضرت محدث سورتی قدس سرہ سے ایک بار پوچھا کہ آپ کو شرف بیعت حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی سے حاصل ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آپ کا شوق جو اعلیٰ حضرت سے ہے وہ کسی سے نہیں۔اعلیٰ حضرت کی یاد ،ان کا تذکرہ،ان کے فضل و کمال کا خطبہ آپ کی زندگی کے لیے روح کا مقام رکھتاہے۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : صاحب زادے ! سب سے بڑی دولت وہ علم نہیں ہے جو میں نے مولانا محمد اسحاق محشی بخاری سے پایا اور وہ بیعت نہیں ہے جو گنج مرادآباد میں نصیب ہوٸی*بلکہ وہ ایمان ہے جو مدارنجات ہے،یہ میں نے صرف اعلیٰ حضرت سے پایا۔اور میرے سینے میں پوری عظمت کے ساتھ مدینہ کو بسانے والے اعلیٰ حضرت ہیں،اس لیےان کے تذکرہ سے میری روح میں بالیدگی پیداہوتی ہے۔اوران کے ایک ایک کلمہ کواپنے لیےمشعل ہدایت جانتا ہوں۔(حیات اعلیٰ حضرت )۔
محدث اعظم کچھوچھوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں حضرت کا انداز بیان اور آنکھیں پرنم مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ واقعی ولی را ولی می شناسد اور عالم را عالم می داند۔(خطبہ ٕ صدارت جشن ولادت اعلیٰ حضرت منعقدہ ناگپور)۔

امام احمدرضا کی ولایت و روحانیت کی تصدیق ان علماۓ عرب و عجم اور ارباب تصوف نے کی جن کی ولایت سورج کی طرح چمک رہی ہے۔اور ان سے درس شریعت و معرفت اوربیعت و خلافت ان اکابر علما و اولیا نے حاصل کی جن کی ولایت پر نہ کل کسی کو شک تھا اور نہ آج ہوسکتا ہے۔اس سے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے پروفیسر ڈاکٹر مسعوداحمد نقش بندی مجددی کی کتاب: “فاضل بریلوی علماۓ حجاز کی نظر میں “حضرت مولانا یٰسین اخترصاحب مصباحی کی کتاب :”امام احمدرضا:ارباب علم و دانش کی نظر میں ” اور استاذ گرامی علامہ محمداحمدمصباحی صاحب کی کتاب ” امام احمدرضا اور تصوف ” کی طرف رجوع کیاجاسکتاہے۔
اختتام میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی روحانیت و ولایت سے متعلق محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کی وہ تحریر ملاحظہ ہو جو حقیقت کی صحیح عکاسی ہے ۔ فرماتے ہیں :
” آج میں آپ کو جگ جیتی نہیں آپ بیتی سنارہاہوں کہ جب تکمیلِ درس نظامی اورتکمیلِ درسِ حدیث کے بعد میرے مربیوں نے کار انتہا کے لیےاعلیٰ حضرت کے حوالے کیا۔زندگی کی یہی گھڑیاں میرے لیے سرمایہ ٕ حیات ہوگٸیں ۔اور میں محسوس کرنے لگا کہ آج تک جو کچھ پڑھا تھا وہ کچھ نہ تھا۔اور اب ایک دریاۓ علم کے ساحل کو پالیا ہے۔علم کو راسخ فرمانا اور ایمان کو رگ و پے میں اتار دینا اور صحیح علم دے کر نفس کا تزکیہ فرمانا یہ وہ کرامت تھی جو ہرہر منٹ پر صادر ہوتی رہتی تھی۔”(المیزان : امام احمدرضا نمبر )۔

کیاہی خوب حضرت ابوالبرکات نے فرمایا :
آپ کی ذات تک کس کی رساٸی ہوبھلا،
ہونبی کامعجزہ بس ختم ہے اس پہ سخن۔

حضرت مبلغِ اسلام نے کیاہی خوب کہاہے :
تمھیں پھیلارہےہوعلم حق اکناف عالم میں،
امام اہل سنت ناٸبِ غوث الوریٰ تم ہو۔
اس مختصر مضمون میں خوفِ طوالت کی بناپر مزید کچھ نہ لکھ کر بارگاہِ امامِ اہل سنت علیہ الرحمة والرضوان میں انھیں چند جملوں کو بطور نذرانہ پیش کرتےہوۓ دعاکرتاہوں کہ
رب قدیر جل جلالہ ہم سب کو اولیاے کرام کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے مالامال فرماۓ اور سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے مسلک کی ترویج واشاعت کی توفیق عطافرماۓ،آمین۔۔۔
ع :تیرے جمال کی زیباٸیاں ادانہ ہوٸیں،
ہزار کام لیا میں نے خوش بیانی سے۔
ورق تمام ہوا مدح ابھی باقی ہے،
سفینہ چاہیے اس بحر بےکراں کےلیے۔

فقط والسلام مع الاحترام۔

از : محمد انورعالم قادری مصباحی۔استاذ فقہ وتفسیر دارالعلوم غریب نواز،الہ آباد۔یو پی ۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x