اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی مکمل جامع سیرت تفصیلا ملاحظہ فرمائیں گے اس سے پہلے آپ نے ایسا پڑھا نہیں ہوگا امام احمد رضا کی مکمل جامع مدلل مفصل جامع سوانح حیات دیکھیں اس دنیا میں بہت لوگ آئے جیسے تیسے زندگی کے دن پورے کیے اور چل دیے۔ ایسے گمنام لوگ کہ جن کے نام و نشان بھی ختم ہوگئے۔ ان کی قبروں کا شاید کہ اب کسی کو علم ہو۔ لیکن بہت سی ہستیاں ایسی بھی تشریف لائیں جنہوں نے اللہ عزوجل و حضور جان جاناں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں زندگیاں بسر کیں۔
ان مبارک ہستیوں نے علم و تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منوایا صدیاں گزر گئیں لیکن ان کی یادیں آج بھی لوگوں کے قلوب و اذہان میں ترو تازہ ہیں۔ بہت سی ہستیاں ایسی بھی ہیں کہ جن کے علم و فضل کے ڈنکے صدیاں گزر گئیں آج بھی بج رہے ہیں۔ لوگ آج بھی ان ہستیوں کے ترانے اور گن گا رہے ہیں۔ نیچے فہرست ہے جو بھی پڑھنا ہو اس پر کلک کرکے آرام سے پڑھیں
- ولادت باسعادت اعلی حضرت
- درسیات سے فراغت
- حفظ قرآن
- دارالعلوم منظر اسلام کا قیام اور درس و تدریس
- اعلی حضرت علم کے سمندر
- 50 سے زائد علم کے ماہر
- بیش بہا تصانیف
- کنزالایمان
- تصانیف اعلی حضرت
- عشق مصطٖی اور اعلی حضرت
- ایک عبقری شخصیت
- عاشقان اعلی حضرت کا خراج تحسین پیش کرنا
- خصائص فتاوی رضویہ
- خدمت دین اعلی حضرت
- مشائخ زمانہ کی نظر میں
- کرامات
- اعلی حضرت کی شاعری
- 15 منقبت اعلی حضرت
- وصال پر ملال
- خصوصی پیغام اعلی حضرت
- ضروری نوٹ
- اعلی حضرت کے متعلق 15 سب سے زیادہ اہم سوالات وجوابات
آج اس ہستی کا مختصر ذکر خیر کریں گے جنہیں اس دار فانی سے رخصت ہوئے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔وہ مبارک ہستی جنہیں کوئی مفتی اعظم کہتا ہے تو کوئی مفسر اعظم کہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اپنے مبارک دور کے سب سے بڑے عالم تھے۔ کوئی کہتا ہے کہ اپنے دور کےلے۔
میری مراد امام اہلسنت، مجدد دین و ملّت، عظیم البرکت، پروانۂ شمع رسالت، حامیٔ سنت، ماحیٔ بدعت، عالم شریعت، پیر طریقت، باعث خیر و برکت، حضرت علامہ مولانا مفتی الحافظ القاری الحاج الشاہ امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ہیں۔
ایک لائن میں تعارف اعلی حضرت – اصل نام المختار تھا 1000 سے زائد کتب کے مصنف 200 سے زائد علوم میں ماہر 32 جلدوں میں فتاوی رضویہ جیسی عظیم کتاب لکھا انھوں نے اسی لیے ان کو اعلی حضرت کہا جاتا ہے منظر اسلام قائم فرمایا اسی طرح کئی تنظیموں کی بنیاد اعلی حضرت نے رکھی تاکہ امت کی فلاح بہبود اس سے ہوسکے
ولادت باسعادت اعلی حضرت
آپ کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال المکرم 1272ھ بروز ہفتہ بوقت ظہر مطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ سن پیدائش کے اعتبار سے آپ کا تاریخی نام المختار (1272ھ) ہے۔
آپ کا نام مبارک محمد اور دادا جان علیہ الرحمہ نے احمد رضا کہہ کر پکارا تو اسی نام سے مشہور ہوئے۔
درسیات سے فراغت
جب عربی کہ ابتدائی کتابوں سے فارغ ہوئے تو تمام درسیات کی تکمیل اپنے والد حضرت مولانا مفتی نقی علی خان صاحب قادری برکاتی قدس سرہ العزیز [متولد 1246 ھ متوفی 1297ھ] سے تمام فرمائی اور تیرہ سال دس مہینہ کی عمر شریف میں 1286 ھ میں تمام درسیات سے فراغ پایا۔
فقیر پر تقصیر قادری اشرفی رض وی غفر اللہ تعالٰی لہ کہتا ہے کہ آج کے دور میں 13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو صحیح طور پر صوم و صلوٰۃ، وضو و غسل اور دیگر ضروری باتوں کا علم نہیں ہوتا۔
لیکن کیا شان ہے میرے امام قدس سرہ العزیز کی کہ 13 سال اور 10 مہینے کی عمر مبارک میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت حاصل کر لی۔
سبحان اللہ العظیم
حفظ قرآن
ایسے زبردست حافظے کے مالک تھے کہ: جب لوگوں نے کہا کہ حافظ صاحب تو فرمایا کہ حافظ تو نہیں ہوں لیکن لوگوں کا کہا رائیگاں نہ جائے تو ایک ماہ کی قلیل مدت میں روزے کی حالت میں قرآن پڑھ کر رات کو تراویح میں قرآن سنا کر قرآن کریم کے باکمال حافظ بن گئے۔
دارالعلوم منظر اسلام کا قیام اور درس و تدریس
امام احمد رضا نے درسیات سے فراغت کے بعد ہی منصبِ افتا کو زینت بخشی۔ کچھ عرصہ طلبہ کو پڑھایا۔ پھر تصنیف و تالیف اور کثرتِ کار کے سبب تدریس کا سلسلہ منقطع ہوگیا البتہ مخصوص شاگردوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس لحاظ سے آپ کے تلامذہ ہند و پاک، بنگلہ دیش، حجاز مقدس اور عرب و افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں شہر بریلی میں آپ نے ’’دارالعلوم منظر اسلام‘‘ قائم فرمایا۔ فرزند اکبر مولانا محمد حامد رضا خان ( م ۱۹۴۳ء) اس کے مہتمم اوّل مقرر ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رقم طراز ہیں:
’’امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے تحریر کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ تدریس کو بھی ذریعۂ تعلیم و تبلیغ بنایا، وہ دارالعلوم منظر اسلام کے بانی تھے انہوں نے یہ دارالعلوم اس وقت (vakit) قائم کیا جب دُشمنِ اسلام حاکموں نے سنی (Sünni) مسلمانوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ایک مثالی دینی مدرسے کے بانی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اخلاص ہو، وہ فکرِ صحیح کا مالک ہو، تعلیم کے بارے میں اس کے نظریات واضح اور مفید ہوں۔ جب ہم امام احمد رضا کی حیات و تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں ہم کو ان کے ہاں یہ ساری خوبیاں نظر آتی ہیں،اور دل (kalp) گواہی دیتا ہے کہ کسی بھی مثالی دینی ادارے کا بانی ہو تو ایسا ہو۔‘‘ ۲؎
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کے مطابق امام احمد رضا نے درسیات سے فراغت کے بعد گھر پر ہی چند سال طلبہ کو پڑھایا، پھر کچھ عرصہ دارالعلوم منظرِ اسلام میں بھی پڑھایا اور بعد میں گونا گوں علمی مصروفیات کی وجہ سے گھر پر صرف مخصوص طلبہ کو مخصوص علوم و فنون کا درس دیتے رہے۔
*حوالہ جات:*
(۱)احمد رضا خان، امام، الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ و المدینۃ، مشمولہ رسائل رضویہ، مطبوعہ ادارہ اشاعت تصنیفات رضا بریلی، ص۱۶۳
(۲) محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، دارالعلوم منظر اسلام، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۲۰۰۱ء، ص ۶۔۷
اعلی حضرت علم کے سمندر
امام احمد رضا علوم وفنون کے بحرِ بیکراں تھے۔ اپنے ٥٤؍ علوم کا تذکرہ خود فرمایا۔ اکیس علوم اپنے والد ماجد سے حاصل کیے، وہ علوم جو اساتذہ سے نہیں پڑھے لیکن نقاد علماے کرام سے اجازت حاصل فرمائی دس شمار ہوتے ہیں۔ وہ علوم جنہیں کتب بینی اور فکر و نظر کے استعمال سے حل فرمایا ان کی تعداد چودہ ہے۔ اسی طرح نو علوم اور شمار کرائے ہیں جن کی تعلیم بھی کسی استاذ سے نہیں لی۔
عصرِ جدید میں علم و فن کا شہرہ ہے، لیکن خود نمائی و جاہ طلبی کا عنصر غالب آگیا ہے- فخر و غرور(Gurur) کا یہ عالَم کہ ایک علم میں درک رکھنے والا دوسروں کو حقیر گمان کرتا ہے۔ گویا علم کا حصول بھی ’’برتری‘‘ کے جذبہ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ امام احمد رضا ٥٤؍ علوم کے جاننے والے ہی نہیں بلکہ ان علوم کے ہر جزیے اور پہلو پر تعمق و مہارت رکھتے تھے- اسے اللہ عزوجل کی عنایت سمجھتے تھے اور تشکر بجالاتے۔ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
’’میرا یہ دعویٰ بھی نہیں کہ ان (علوم) میں اور ان کے علاوہ دیگر حاصل کردہ فنون میں بہت بڑا ماہر ہوں۔ میں تو اپنی انتہائی کوشش یہ سمجھتا ہوں کہ ان علموں سے کچھ حصہ نصیب ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے سوال ہے کہ وہ مزید برکت فرمائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر فن کے معمولی طالب علم کو مجھ پر غلبہ ہے لیکن مولیٰ سبحانہ و تعالیٰ جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے جسے چاہتا ہے گراتا ہے۔‘‘ ۱؎
50 سے زائد علم کے ماہر
ویسے تو 250 سے زائد علم کے متعلق بتایا گیا ہے لیکن یہاں صرف کچھ علموں کے نام شمار کیا جاتا ہے مندرجہ ذیل علوم میں اعلی حضرت ماہر تھے
- تفسیر و
- اصول تفسیر،
- ریاضی دان،
- طبیب ،
- حدیث و اصول حدیث،
- فقہ و اصول فقہ،
- علم عقائد،
- علم الکلام،
- علم الفرائض،
- رسم خط قرآن مجید،
- الادب العربی،
- شاعری،
- اسماء الرجال لغت،
- سیر، فضائل،
- مناقب،
- سلوک،
- اخلاق،
- ترغیب وترہیب،
- تاریخ،
- مناظرہ،
- تکسیر،
- وفق،
- توقیت،
- ھینت،
- حساب،
- ریاضی،
- ہندسہ،
- جبر و مقابلہ،
- زیجات،
- جفر،
- نجوم،
- تصنیفات باعتبار موضوع،
- الغرض ہر ہر شعبہ پر ہر ہر علوم و فنون پر گہری نظر رکھنے وا
بیش بہا تصانیف
یوں تو محقق بریلی نے 1000 سے زائد کتب تصنیف فرمائی چاہے وہ کسی بھی فن میں ہو کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور ہیں التبہ علم فقہ میں ان کا مقام ہی الگ تھا جس میں اللہ نے خاص فضل عطا فرمایا تھا
کنزالایمان
جب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا قرآن کریم کی غلط تشریحات و تاویلات کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری و ساری تھیں تو عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز قرآن کریم کا ترجمہ بنام “کنزالایمان” کر کے امت مسلمہ کو ایک عظیم الشان تحفہ عنایت فرمایا اور عوام و خواص کے دین و ایمان کو محفوظ رکھنے کی ایک عظیم سعی فرمائی۔ دھیان رہے کہ ترجمہ قرآن کنز الایمان ایک اعلی حضرت کی کرامت میں سے ہے
ایسا ترجمہ جو اتنا مقبول ہوا کہ دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں لوگ اسے پڑھ کر اپنے قلوب و اذہان کو معطر کرتے ہیں۔ ایسا مبارک ترجمہ جسے پڑھ کر بندۂ مومن میں اللہ کریم کا خوف اور حضور جان جاناں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق ٹھاٹھیں مارتا ہے۔
تصانیف اعلی حضرت
مختلف علوم و فنون پر آپ قدس سرہ العزیز نے کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں۔ لیکن ان میں سے کافی ساری کتب دستیاب نہ ہو سکیں۔ آپ کی جملہ تصانیف میں سے جن کو سب سے زیادہ مقبولیت و پذیرائی حاصل ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی۔ان میں سے ایک”العطایہ النبویہ فی الفتاوی الرضویہ” اور دوسرا “کنزالایمان” یاد رہے ترجمہ کنزالایمان شریف پر حضور سیدی صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالٰی کا مختصر تفسیری حاشیہ بنام “تفسیر خزائن العرفان” بھی موجود ہے جو کنزالایمان شریف کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
عشق مصطٖی اور اعلی حضرت
اور عشق رسول کے اس درجہ پر فائز تھے کہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی میرے دل کے دو ٹکڑے بھی کر دے تو ایک پر
“لا الہ الااللہ” اور دوسرے پر “محمد الرسول اللہ” لکھا ہوا پائے گا۔
فرماتے ہیں۔۔۔ یہ ہے عشق اعلی حضرت
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
ایک عبقری شخصیت
سیدی امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز ایسی ہمہ جہت اور عبقری شخصیت ہیں کہ آپ کی مبارک سیرت پر مختلف علماء کرام نے کام کیا اور کمال کیا۔
عاشقان اعلی حضرت کا خراج تحسین پیش کرنا
ہر ایک نے اپنے اپنے عشق اور اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ اسی ضمن میں ایک اور ہستی کا ذکر خیر نہ کیا جائے تو یہ باب نامکمل تصور کیا جائے گا۔ اسی ویبسائٹ میں اعلی حضرت کی شان میں علما کے تاثرات جن میں 30 سے زائد علما ئے کبار کے تاثرات و منقولات کو نقل کیا گیا ہے بہر بہترین مضمون ہے
خصائص فتاوی رضویہ
مصنف کتب کثیرہ، استاذ العلماء، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی صاحب حفظہ اللہ تعالٰی ہیں جنہوں نے بڑی محنت، لگن، عرق ریزی، جانفشانی سے فتاوٰی رضویہ شریف کے خصائص مبارکہ کا نچوڑ پیش کیا۔
آپ کی کتاب مستطاب بنام “خصائص فتاوٰی رضویہ” اگر اسے آئینۂ فتاوٰی رضویہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اکبر بک سیلرز اردو بازار لاہور والوں نے بڑی محنت سے اس کتاب کو شائع کیا۔
یہ کتاب جہان رضا میں ایک اور منفرد اور کمال اضافہ ہے۔ رضویات پر کام کرنے والوں کیلئے یہ کتاب ماخذ کی حیثیت رکھے گی ان شاء اللہ عزوجل۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ امین ثم امین
خدمت دین اعلی حضرت
محدث بریلویؒ نے اُس دور پُر فتن میں نا صرف اِن دونوں محاذوں پر عوام الناس کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا بلکہ بالخصوص اپنے تلامذہ، خلفاء اورمحبین و متعلقین کی ذہنی صلاحیت اور انداز ِفکر کی مناسبت سے متعلقہ فرائض کے انجام دہی کی ترغیب و تربیت بھی فرمائی اورسیاسی سوجھ بوجھ اور دینی فکر وشعور رکھنے والوں کو اُن کے ،اُن کے استعداد ِکار کے مطابق کام کرنے کی علمی ہدایت بھی دی ۔یعنی محدث بریلوی ؒنے مسلمانان ِہند کی سیاسی و مذہبی تربیت کے دونوں محاذوں پر مکمل توجہ و یکسوئی سے نہ صرف کام کیا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی محاذ کوقوت و تقویت پہنچانے کے لیے خود ایک مذہبی سیاسی جماعت”رضائے مصطفےٰ” بھی تشکیل دی۔جس کے پلیٹ فارم سےصدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادیؒ،مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ، صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمیؒ،حجۃ الاسلام مولانا حامد رضاخان ؒاورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضاخانؒ نے تاریخ ساز خدمات بھی انجام دیں
مشائخ زمانہ کی نظر میں
مشائخ زمانہ کی نظروں میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی فنافی الرسول تھے۔ اکثر فراق مصطفیٰﷺ میں غمگین رہتے اور سرد آہیں بھرا کرتے تھےپیشہ ور گستاخوں کی گستاخانہ عبارات کو دیکھتے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی اور پیارے مصطفیٰﷺ کی حمایت میں گستاخوں کا سختی سے رد کرتے تاکہ وہ جھنجھلا کر آپ کو برا کہنا اور لکھنا شروع کردیں۔ یہی وجہ ہے علما کبار کی نظر میں اعلی حضرت کی ایک الگ پہچان تھی آپ اکثر اس پر فخر کیا کرتے تھے کہ باری تعالیٰ نے اس دور میں مجھے ناموس رسالت مآب ﷺ کے لیے ڈھال بنایا۔ طریق استعمال یہ ہے کہ بد گویوں کا سختی اور تیز کلامی سے رد کرتا ہوں کہ اس طرح وہ مجھے برا بھلا کہنے میں مصروف ہو جائیں۔ اس وقت تک کے لیے آقائے دو جہاں ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے سے بچے رہیں گے۔
سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جہاں دو جہاں فدا۔
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں
کرامات
ویسے تو میرے امام کی سینکڑون کی تعداد میں کرامات کا صدور ہوا ہے جس کا ذکر یہاں مختصر سی مضمون میں گنجائش نہیں البتہ جن کو جاننا ہو وہ مکمل کرامات اعلی حضرت پر کلک کریں
اعلی حضرت کی شاعری
جہاں امام ہر ایک علم میں ماہر تھے وہی شاعری کی دنیا میں ان کو حسان الھند کہاجاتا ہے ان کے کلام میں وہ بات ہوتی جو دیگر شاعروں کے کلام میں ہرگز نہیں ملےگی یقین نہ آئے اعلی حضرت کی شاعری تو خود پڑھ کہ دیکھیں
15 منقبت اعلی حضرت
شان امام احمد رضا خان پر لاکھوں کی تعداد میں صفحات میں منقبت امام احمد رضا لکھا گیا ہے لیکن یہاں صرف 20 منقبت اعلی حضرت پیش خدمت ہے امید ہے ضرور قبول فرمائیں گے
وصال پر ملال
آخر کار اپنے مالک حقیقی سے 23 صفر المظفر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے مریدوں عاشقوں کے آنکھوں کو نم کردیے
خصوصی پیغام اعلی حضرت
پیغامِ اعلی حضرت بہ موقع عرسِ رضوی شریف 103:
سیدی سرکار مجدد اعظم عالم قدس سره فرماتے ہیں؛
” قرآن وحدیث میں شریعت، طریقت، حقیقت سب کچھ ہے
اور ان میں سب سے زیادہ ظاہر وآسان مسائلِ شریعت ہیں؛
ان کی تویہ حالت ہے کہ اگر ائمہ مجتہدین انکی شرح نہ فرماتے تو علماء کچھ نہ سمجھتے
اور علماء کرام اقوال ائمہ مجتہدین کی تشریح وتوضیح نہ کرتے تو ہم لوگ ارشادات ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے
اور اب اگر اہلِ علم عوام کے سامنے مطالبِ کتب کی تفصیل اور صورتِ خاصہ پرحکم کی تطبیق نہ کریں، تو عام لوگ ہر گز ہر گز کتابوں سے احکام نکال لینے پر قادر نہیں، ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے؛
اس لئے یہ سلسلہ مقرر ہے کہ عوام آج کل کے اہل علم ودین کا دامن تھامیں اور وہ تصانیفِ علمائے ماہرین کا اور وہ مشائخِ فتوٰی کا اور وہ ائمہ ہدٰی کا اور وہ قرآن وحدیث کا ، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا وہ اندھا ہے۔ جس نے دامنِ ہادی ہاتھ سے چھوڑا عنقریب کسی عمیق، (گہرے) کنویں میں گرا چاہتا ہے۔ “
فتاوی رضویہ شریف
جلد مبارک 21
اللہ کریم ہم سب کو فیضان اعلیٰحضرت سے مالا مال فرمائے۔
امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
منیر احمد اشرفی غفراللہ تعالٰی لہ
ضروری نوٹ
یہ مضمون بہت محنت سے تیار کیا گیا ہےلہذا واٹساپ وغیرہ میں شیئر کرنا ہرگز نہ بھولیں اور اگر کچھ بھی آپ کو اس میں شامل کرنا ہتے تو نام کے ساتھ کمینٹ میں لکھیں ان شاء اللہ اسی مضمون میں اس کو شامل کردیا جائےگا
اعلی حضرت کے متعلق 15 سب سے زیادہ اہم سوالات وجوابات
نیچے محقق بریلی کے بارے سب سے زیادہ جو لوگ جاننا چاہتے ہیں وہ سوال جواب کی شکل میں پیش کیے جا رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں
اعلی حضرت کی تاریخ پیدائش
اعلی حضرت کی تاریخ پیدائش 10 شوال المکرم 1272 ہے یہ اردو تاریخ ہے ور انگریزی تاریخ کے حساب سے 14 جون 1856 تھا
کس دن اور کس وقت پیدا ہوئے تھے
سنیچر کے دن ظہر کے وقت اعلی حضرت کی پیدائش ہوئی تھی
اعلی حضرت کی سب سے پہلی عربی زبان میں کون سی کتاب ہے
ہدایۃ النحو کی شرح سب سے پہلے عربی میں لکھی اعلی حضرت نے
کتنے سال کی عمر میں عربی شرح لکھا تھا؟
صرف 8 سال کی عمر میں پڑھائی کے دوران
اعلی حضرت نے سب کس عمر میں فتوی دینا شروع کیا؟
صرف 14 سال کی عمر سے ہی آپ نے فتوی دینا شروع کیا
سب سے پہلا فتوی کس کے متعلق تھا؟
اعلی حضرت کے پاس پہلا سوال مسئلہ رضاعت پر تھا اور اسی مسئلہ رضاعت پر اعلی حضرت کے والد نے بھی پہلا فتوی دیا تھا
اعلی حضرت کے والد کا نام، کیا تھا؟
نقی علی خان اعلی حضرت کے والد کا نام تھا
اعلی حضرت کی س سے زیادہ مشہور کتاب کا نام بتائیں؟
سب سے زیادہ مشہور کتاب کا نام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ہے جو کہ 32 جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ مفتوں کے لیے س سے اہم کتابوں میں سے ایک مانی جاتی ہے اس کی قیمت لگبھگ 8000 ہے
اعلی حضرت کے پیر کا نام کیا تھا؟
پیر کا نام آل رسول مارہوی ہے جو کہ سلسلہ برکاتیہ کے سب سے اہم بزرگ ہیں
اعلی حضرت نے صرف 8 گھنٹے میں کون سی کتاب مکہ شریف میں لکھا تھا؟
صرف 8 گھنٹے کی قلیل مدت میں الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ لکھا گیا تھا یہ کتاب حضور علیہ السلام کے علم غیب پر مشمتل ایک علمی خزانہ ہے
اردو کا سب سے بہترین ترجمہ قرآن کا نام کیا ہے؟
کنز الایمان فی ترجمہ قرآن اردو کا صحیح ترین ترجموں میں سے ایک ہے
ما شاء اللہ پڑھ کر مزہ آگیا اس پر اور مزید بڑھا دیں گے تو مزہ آجائےگا
واضح کر دیا اپ نے
الحمد للہ بہترین مضامین میں سے ایک ہے اعلی حضرت پر
Aap sahi farma rahe hain
اچھا ایسا ہے کیا
This is amazin post on aala hazrat imam ahmad raza khan
Khulafae aala hazrat ka zikr pr mai likh deta hu
Hu mouz kar di
ماشا۶اللہ بہت ہی عمدہ 💞
[…] اہلسنت مجدد اعظم سیدی اعلیحضرت علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:”فوت شدہ […]
[…] حضرت امام اہل سنت مجدددین وملت الشاہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت دس شوال 1272ھ […]
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ تحریر