*آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار ابو بکر صدیق غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا
- ولادت باسعادت ابو بکر صدیق
- ابو بکر صدیق کی والدہ کا نام
- عتیق اور صدیق لقب پڑبے کی وجہ
- عتیق صدیق
- سلسلہ نسب ابوبکر
- سیدنا ابو بکر کے والد
- ابتدائی زندگی
- صدیق قبل اسلام:
- اسلام اور صدیق
- صدیق اسلام اور مکی زندگی
- وسعت علم اور صدیق:
- اجتہاد اور صدیق
- صدیق بطور فیصل
- صدیق بطور خطیب
- سیدنا صدیق کی اولو العزمی
- ہجرت
- خلافت
- خاندان نبی کا خیال
- خلافت کے بعد پہلا خطبہ
- ریاستی ذمےداریاں
- نمایا کارنامے
- ابوبکر کا آخری زمانہ
- سیدنا صدیق کا وقت رحلت
- وصال پرملال
- آخری بات اور اسپیشل تحفہ
ولادت باسعادت ابو بکر صدیق
*حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ۵۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا۔ ابو بکر کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: عبد ﷲ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔ مرہ ہی پر ان کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتا ہے۔ کلاب بن مرہ آپ کے جبکہ تیم بن مرہ ابو بکر کے جد تھے۔ عبدﷲ اپنی کنیت ابو بکر اور ان کے والد عثمان اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت ابو قحافہ سے مشہور ہیں۔*
ابو بکر صدیق کی والدہ کا نام
*حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر اورکنیت ام خیر تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوبکرکے کئی بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تو ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے نذر مانی کہ اب اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔ ان کے بچپن کا یہ نام قبول اسلام کے بعد بدل کر عبدﷲ ہو گیا۔ خون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے،*
عتیق اور صدیق لقب پڑبے کی وجہ
*متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ ابو بکر جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ اگرچہ عمر بھر حضرت ابو بکر اپنی کنیت سے موسوم کیے جاتے رہے، لیکن اس کنیت کا یقینی سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ انھیں جوان اونٹوں (بکر) کی پرورش اور ان کے علاج معالجے سے دل چسپی تھی یا شایدان کا سب سے پہلے اسلام لانا (بکر الی الاسلام) اس کنیت کا سبب بنا۔ ان کا ایک نام عتیق بھی ہے، جس کے معنی ہیں: خوب صورت اور سرخ و سفید، شروع سے نیک۔ ایک سبب یہ ہے کہ آں حضور صلیﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کو دیکھ کر فرمایا:
*’’تم ﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد (عتیق ﷲ)*
*ہو۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۷۹) ہمیشہ سچ بولنے اورواقعۂ معراج کی فی الفور تصدیق کرنے کی وجہ سے صدیق کا لقب ملا۔*
*ان کی رافت و شفقت کی وجہ سے ان کو اواہ بھی کہا جاتا۔*
*حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔* _(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1)_
*آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:*
*عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔* *عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔*
*چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔*
_(مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347)
*سیرت حلبیہ میں ہے کہ کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔* *آپ رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:*
عتیق صدیق
*عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔*
_(صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6)_
*حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حض
میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:*
*حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔*
*آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔*
*سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔*
*آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ کے دوران شام میں حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔*
_(الرياض النضرة، امام ابو جعفر طبری، 1: 266)_
*حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔*
*حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔*
*ان چاروں کے نام یہ ہیں:*
*ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ*
*ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ*
*عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ*
*محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ*
_(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، الرقم: 11) _
سلسلہ نسب ابوبکر
*سیدنا ابو بکر کا سلسلہ نسب چھٹی پست میں مرہ پر امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے* _(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ 119)_ *
سیدنا ابو بکر کے والد
* *ابو قحافہ عثمان بن عمرو شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے ابتداء جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہء اطفال سمجھتے تھے چنانچہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو میں امام کائنات کی تلاش میں ابو بکر کے گھر آیا اور وہاں ابوقحافہ موجود تھے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نےمیرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا ہے۔* _(الاصابہ جلد 4 صفحہ 221)_
*ابو قحافہ فتح مکہ تک اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ مسجد میں تشریف فرماتھے اور وہ اپنے فرزند سعید سیدنا ابو بکر کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور امام کائنات نے ان کی ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی ہے میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا اس کے بعد امام کائنات نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کر کے مشرف بہ اسلام فرمایا سیدنا ابو قحافہ نے بڑی عمر پائی۔ امام کائنات کے بعد اپنے فرزند ارجمند سیدنا ابو بکر کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے اور آنکھوں کی بصارت چلی گئی تھی۔ 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔* _(الاصابہ جلد4 صفحہ 222)_
ابتدائی زندگی
* *واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی۔* *آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کا نام پہلے عبد الکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبد اللہ رکھا، آپ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا۔ آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا۔ مکہ میں آپ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔ کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا۔ مزاج میں یکسانی کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ بعثت کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذن رسول حضرت بلال سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ آپ کی دعوت پر ہی حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی۔*
صدیق قبل اسلام:
* *سیدنا ابوبکر صدیق اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی دیانتداری اور راست بازی کا خاصہ شہرہ تھا اہل مکہ ان کو علم تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے پاس جمع کرایا جاتا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا توقریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔سیدنا صدیق کو ایام جاہلیت میں بھی شراب نوشی سے نفرت تھی جیسی زمانہ اسلام میں تھی اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شراب نوشی میں نقصان آبرو ہے رحمت کائنات کے ساتھ بچپن ہی سے ان کوخاص انس اور خلوص تھااور امام کائنات کے حلقہ ء احباب میں ہی داخل تھے اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔*
اسلام اور صدیق
* *رحمت کائنات کو جب خلعت نبوت عطا ہوا اور امام کائنات نے مخفی طور پر احباب مخلصین اورمحرمان راز کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو مردوں میں سے سیدنا ابو بکر نے سب سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا اور بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کیے ہیں لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں اصل یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کا آئینہ دل پہلے ہی سے صاف تھا فقط خورشید حقیقت کے عکس افگنی کی دیر تھی کیونکہ گذشتہ صحبتوں کے تجربوں نے نبوت کے خدوخال کو اس طرح واضح کر دیا تھا کہ معرضت حق کے لیے کوئی انتظار باقی نہ رہا البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مؤرخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ کا اسلام سب سے مقدم ہے اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی کو اولیت کا فخر حاصل ہے۔اور بعض کا خیال ہے کہ سیدنا زید بن ثابت بھی سیدنا ابوبکر سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے لیکن اس کے مقابلہ میں ایسی اخبار وآثار بھی بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیت کا طغرائے شرف و امتیاز صرف اسی ذات گرامی کےلیے مخصوص ہے اور سیدنا حسان بن ثابت کے ایک قصیدہ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے۔*
*اذاتذکرت شجوا من اخی ثقۃ* فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا*
*جب تم صداقت شعار ہستی کے دکھ درد کو یا د کرنے لگو تو اپنے بھائی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارناموں کو یاد کرلینا۔*
*خیر البریۃ اتقاھا واعدلہا* *بعدالنبی واوفاہا بما حملا*
*جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انبیاء کرام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ انصاف پسند ہیں ،ونیز ذمہ داری میں سب سے زیادہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔*
*والثانی التالی المحمود مشہدہ* *واول الناس ممن صدق الرسلا*
*نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یار غار ، ہمیشہ آپ کی صحبت میں رہنے والے اور مخلوق میں قابل تعریف ہیں ‘ اور سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔*
محقیقن نے ان مختلف احادیث وآثار میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ عورتوں میں سیدنا علی بچوں میں سیدنا زید بن حارثہ غلاموں میں اور سیدنا صدیق آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہیں۔*
_(فتح الباری ج7 ص 130)
صدیق اسلام اور مکی زندگی
* *رحمت کائنات نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا سیدنا ابو بکر اس بے بسی کی زندگی میں جان مال رائے اور مشورہ غرض ہر حیثیت سے رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج و راحت میں دست و بازوبنے رہے امام کائنات روزانہ صبح وشام سیدنا ابو بکر کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک مجلس راز قائم رہتی۔* _(بخاری باب الہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینہ)_ *مکہ میں ابتداً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجہء ظلم و ستم میں گرفتار ہونے بندگانِ توحید کو ان کے جفاکار مالکوں سے خرید کر آزاد کردیا۔*
*چنانچہ سیدنا بلال عامر بن فہیرہ، نہدیہ، جاریہ بنی مؤمل اور بنت نہدیہ وغیرہ اس صدیقی جودوکرم کے ذریعہ نجات پائی۔ لیکن آج معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ ایک نام نہاد مسلم حاکم وقت جس نے ایک آزاد بنت حوا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کافروں اور اسلام کے دشمنوں کے حوالے کیا گیا آج کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کے روحانی فرزند جو زیاد کی طرح اپنی بہن کی عصمت کےلیے لبیک کہیں؟ اور وہ صدیق تھے کہ جب بھی کفار مکہ امام کائنات پر دست درازی کرتے تو یہ مخلص جانثار اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کافروں کےآگے سینہ سپر ہو جاتے ایک دفعہ رحمت کائنات خانہ کعبہ میں تقریر کر رہے تھے اور مشرکین مکہ اس تقریر سے سخت برہم ہوئے اور اس قدر مارا کہ امام کائنات بے ہوش ہوگئے اور ابو بکر نے آگے بڑھ کر کہا کہ اللہ تمہیں سمجھائے کیا تم ان کو اس لیے قتل کرو گے کہ یہ صرف ایک اللہ کا نام لیتاہے۔*
_(فتح الباری ج7 ص 129)_
ایسےپیچیدہ حالات کی وجہ سے رحمت کائنات نے ہجرت مدینہ کا ارادہ کیا اور مشرکین مکہ اپنے تمام مکروں کو آزمانے کے باوجود اپنی ناکامی پر سخت برہم ہوئے اور اسی وقت رحمت کائنات کی گرفتاری کا اعلان کیا کہ جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے چنانچہ متعدد بہادروں نے اپنے باطل مذہب کا جوش اور انعام کی طمع و لالچ میں امام کائنات کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ مکہ کے اطراف میں کوئی آبادی ویرانہ جنگل اورپہاڑ یا سنسان میدان ایسا نہ ہوگا جس کا جائزہ نہ لیا گیا ہو یہاں تک کہ ایک جماعت غارثور کے پاس جاپہنچی(جوکہ ہجرت کے دوران سب سے پہلی آرام گاہ تھی) اس وقت سیدنا صدیق کو نہایت اضطراب ہوا اور حزن و یاس کے عالم میں بولے اللہ کے رسول اگر وہ ذرا سی بھی نیچے کی طرف نگاہ کریں گے توہمیں دیکھ لیں گے مگر امام کائنات نے صدیق کو تشفی دی اور فرمایا مایوس وغمزدہ نہ ہوں ہم صرف دو نہیں ہیں ایک تیسرا (یعنی اللہ) بھی ہمارے ساتھ ہے
۔* _(مسلم فضائل ابی بکر الصدیق)_ *
اس تشفی آمیز فقرہ سے سیدنا ابو بکر صدیق کو اطمینان ہو گیا اور ان مضطرب دل امداد غیبی کے تیقن پر لازوال جرأت و استقلال سے مملو ہوگیا خدا کی قدرت کہ کفارجو تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچے تھے ان کو مطلق محسوس نہ ہوا کہ ان کا گوہر مقصود اسی کان میں پنہاں ہے اور وہ ناکام واپس چلے گئے۔ فرمایا امام کائنات نے (من کان للہ کان اللہ لہ۔۔۔) اسی طرح یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا بارہویں ربیع الاول سنہ نبوت کے چودہویں سال مدینہ کے قریب پہنچا اور انصار کو امام کائنات کی روانگی کا حال معلوم ہو چکاتھا وہ نہایت بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے تھے امام کائنات شہر کے قریب پہنچے تو انصار مدینہ استقبال کے لیے نکلے اور ہادی برحق کو حلقہ میں لے کر شہر قبا کی طرف بڑھے امام کائنات نے اس قافلے کو داہنی طرف مڑنے کا حکم دیا اور بنی عمرو بن عوف میں قیام پذیر ہوئے اور یہاں انصار جوق در جوق زیارت کےلیے آنے لگے اور رحمت کائنات خاموشی کے ساتھ تشریف فرماتھے اور سیدنا ابوبکر کھڑے ہو کر لوگوں کا استقبال کر رہے تھے بہت سے انصار جوپہلے رحمت کائنات کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے وہ غلطی سے سیدنا ابو بکر کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہ جب آفتاب نبوت سامنے آنے لگا اور جانثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے آقائے نامدار پر سایہ کیا تو اس وقت خادم اور مخدوم میں امتیاز ہو گیا اور لوگوں نے رسالت مآب کو پہنچانا۔*
_(بخاری باب ہجرۃ النبی واصحابہ)_
وسعت علم اور صدیق:
* *رحمت کائنات نے دنیائے اسلام کے پہلے حج میں سیدنا صدیق کو مدینہ منورہ سے امیر الحج بناکر روانہ فرمایا عبادات میں سے مناسک حج کا علم انتہائی دقیق ہے اگر صدیق کے پاس وسعت علم نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی امیر الحج نہ بناتے اور اسی طرح نماز کے معاملہ میں بھی رحمت کائنات نے سیدنا صدیق ہی کو اپنا نائب بنایا اور رسول اکرم نے سیدنا انس سےجو کتاب الصدقہ لکھوائی تھی اس کو سیدنا صدیق سے روایت کیا ہے وہ صدقہ کے بارے میں سب سے زیادہ قابل اعتماد دستاویز ہیں کوئی شرعی مسئلہ ایسا نہیں جس میں سیدنا صدیق نے غلطی کی ہو۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام کے کئی ایک ایسے مسئلے مذکور ہیں جن میں انکو غلطی لگی۔* _(ابو بکر افضل الصحابہ ص 60)_
اجتہاد اور صدیق
* *سیدنا صدیق کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کی اصل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے نہ ملتی تو وہ اس میں اجتہاد کرتے اور کہا کرتے تھے:* *أَقُولُ فِيهَا بِرَأْي فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمَنَ الشَّيْطَانِ* _السنن الصغير للبيهقي (2/ 362)_ *میں اپنی رائے سے کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو یہ میری غلطی ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔* *جب بھی ان کے پاس کوئی مسئلہ آتا تو وہ کتاب اللہ سے اس کا حل ڈھونڈتے اگر مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ کرام سے اس بارے میں پوچھتے ایسے موقعوں پر آپ کہا کرتے تھے:* *اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَنْ نَبِيِّنَاصلى الله عليه وسلم* _السنن الكبرى للبيهقي (10/ 114)_ *
اللہ کا شکر ہے ہم میں ایسے لوگ موجو دہیں جنہوں نے رسول کی سنت کو محفوظ کر رکھا ہے۔* ۔ *لیکن دور حاضر میں اہل الرائے کا ایک ٹولہ دلیلیں تو ابو بکر و عمر کے اجتہاد کی پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اکثر و بیشتر مسائل حدیث رسول سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ سچ کہا تھا سیدنا علی نے (الکلمۃ حق أرید بہا الباطل) آئیڈیل اور نمونہ تو صحابہ کے اجتہاد کو پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں شریعت کی مخالفت کرتے ہیں اللہ انہیں ہدایت دے اور دین کی سمجھ دے۔*
صدیق بطور فیصل
* *سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنے نہایت معتمد ساتھی سیدنا عمر فاروق کے خلاف ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا تھا۔آئیے اس واقعہ کے بارے میں ان کا موقف پڑھتے ہیں ہوا کچھ یوں کہ سیدنا عمر نے اپنی ایک انصاری اہلیہ کو طلاق دے دی تھی اس خاتون سے ان کا بیٹا عاصم تھا کچھ عرصہ بعد سیدنا عمر نے دیکھا کہ وہ انصاری خاتون اپنے بیٹے کو اٹھائے تھی اور بچہ دودھ پینا چھوڑ چکا تھا اور اب چلنے پھرنے کےقابل ہوگیا تھا سیدنا عمر نے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ماں سے چھیننا چاہا اور تھوڑی سختی بھی کی کہ بچہ رونے لگا سیدنا عمر کہنے لگے میں اپنے بیٹے کا تمہاری نسبت زیادہ حقدار ہوں یہ جھگڑا سیدنا صدیق تک پہنچا تو سیدنا صدیق نے ماں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فرمایا اس بچے کے لیے ماں کی محبت و شفقت اس کو گود اور بستر تمہاری نسبت زیادہ بہتر ہے حتی کہ بچہ جوان نہ ہوجائے اور اپنا فیصلہ خود نہ کرے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ماں زیادہ مشفق و مہربان زیادہ رحم دل زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ نرم مزاج ہےجب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کرے تب تک وہ بچے کی زیادہ حقدار ہے۔* _(مصنف عبدالرزاق 54/7 حدیث 2600)_ *
صدیق بطور خطیب
*سیدنا ابو بکر نے لشکر اسامہ کے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! ٹہرو میں تمہیں کچھ ہدایات دینا چاہتا ہوں۔ انہیں اچھی طرح یاد کرلو، نہ خیانت کرنا، نہ مال غنیمت چرانا، نہ بد عہدی کرنا، نہ لاشوں کی بے حرمتی کرنا، نہ پھل دار درخت کاٹنا، نہ بلاضرورت بکری گائے اور اونٹ ذبح کرنا۔(اب ذرا سوچئے جتنے کاموں سے سیدنا صدیق نےمنع کیا ہے ان میں سے وہ کونسا ایسا کام ہے جو ہم اورہمارے حکمران نہیں کرتے؟ پھر فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ وہ ان سب امور کی پابندی کر کے فتح عزت وعظمت و کامیابی ان کا ثمرہ بنتی تھی اور ہم ان سب کاموں میں مخالفت ک رتے ہیں تو ذلت و رسوائی آج ہمارا مقدر بن چکی ہے) عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزروگے جو گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف ہوں گے۔ان سے تعرض نہ کرنا، تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہوجو تمہارے لیے رنگ برنگے کھانے لائیں گے تم ہر کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تمہارا ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوگا جنہوں نے اپنے سر درمیان سے مونڈ رکھے ہونگے اور بقیہ بالوں کو پٹیوں کی مانند چھوڑ دیا ہوگا ایسے لوگوں کو تہ تیغ کر دینا، اب اللہ کا نام لیکر روانہ ہو جاؤ۔پھر سیدنا ابوبکر نے سیدنا اسامہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:* *اصنع ما أمرك به نبي الله صلى الله عليه و سلم ابدأ ببلاد قضاعة ثم إيت آبل ولا تقصرن في شيء من أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا تعجلن لما خلفت عن عهده* رسول کے حکم کی تعمیل کرنا جنگ کی ابتدا بلاد قضاعہ سے کرنا پھر آبل (موجودہ اردن کے جنوب میں واقع ایک شہر ہے) پر حملہ آور ہونا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں ذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرنا اور رحمت کائنات کے عہد سے پیچھے مت ہٹنا۔* *سیدنا اسامہ کا لشکر چلاگیا اہل لشکر امام کائنات کے حکم کے مطابق قضاعہ کےقبائل پر حملہ آور ہوئے آبل فتح کیا اور مال غنیمت او رفتح کے ساتھ سرخرو ہوکر لوٹے ان کا یہ پورا مشن چالیس روزہ تھا اور چالیس ہی دن میں مکمل کامیابی مل گئی۔* _(تاریخ الطبری 45-47/4،والسیرہ النبویۃ الصحیحہ للدکتور العمری 470-467/2)_
سیدنا صدیق کی اولو العزمی
* *سیدنا صدیق نہایت درجہ اولو العزم اور صمیم القلب خلیفہ تھے ان کی اولوالعزمی کے واقعات تو بہت ہیں لیکن یہاں ہم چند ایک ذکر کرتے ہیں۔* *1۔ مرتدین اور مانعین زکاۃ کا فتنہ بپا ہوا تو سیدنا صدیق نے فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنےکااعلان فرمایا زیادہ تر صحابہ نے اس بات سے اختلاف کیا جن میں سیدنا عمر بھی شامل تھے لیکن سیدنا صدیق اپنے ارادے پر قائم رہے اور بہ درجہ غایت اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جو لوگ نماز اور زکاۃ میں فرق کرینگے میں ان سے ضرور جنگ کروں گا چاہے مجھے اکیلا ہی کیوں نا مقابلہ کرنا پڑے۔* *2۔ عراق میں مثنی بن حارثہ شیبانی جب برسر پیکار تھے تو انہوں نے دربار خلافت سے مزید فوج کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیق نے ان کی امداد کےلیے خالد بن ولید کو اچھی خاصی فوج دیکر عراق روانہ کیا۔* *3۔ شام کے محاذ پر فوج بھیجنے کی ضرورت پڑی تو تمام عرب سے فوجیں جمع کیں پھر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اور اسلامی فوج کے سربراہوں کی طرف سے جو شام میں مقیم تھے دشمن پر حملہ کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ سی ہوئی تو سیدنا خالد بن ولید کو وہاں پہنچنے اور حملہ کرنے کا حکم دیا۔* _(الصدیق ابو بکر لمحمد حسین ھیکل ص 40،41)
ہجرت
سیرت کی تمام معتبر کتابوں میں ہجرت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے مختصرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے بعض خوش نصیب افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا لیکن اکثر اپنی سرکشیوں کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے رفقاء کار کو طرح طرح کی تکالیف دیتے چنانچہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم نازل ہوا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطر سفر میں اپنے رفیق سفر کا جب انتخاب فرماتے ہیں تو آپ کی نگاہ سیدنا صدیق اکبر پر جا کر ٹھہرتی ہے ۔ اسی سفر میں وہ واقعہ بھی پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سوار ہو گئے اور چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچے ۔ غار کی صفائی کی، آپ تین دن تک وہاں رہے ۔ آپ کی بیٹی روزانہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آپ کے لیے کھانا پہنچاتیں ۔ دشمن آپ کی تلاش میں پیچھے پیچھے غار تک پہنچ گیا ۔ یہاں تک کے اس کے قدم بھی دکھائے دینے لگے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم کے بارے میں خوف ہوا تو تسلی کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں مزید سیدنا صدیق اکبر کی صحابیت کا اعزاز بھی اپنے سینے پر تاقیامت نقش کردیا ۔اس غار میں وہ سانپ کے ڈسنے والا واقعہ بھی پیش آیا۔ جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن سیدنا صدیق اکبر کی ایڑھی پر لگایا ۔*
خلافت
: سیرت حلبیہ اور دیگر کتب سیرت میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :* *تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابو بکر سے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔* *امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتا ب ”ازالۃ الخفاء ” میں خلافت کے مفہوم پرنہایت ہی عمدہ اور لطیف بحث کی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :” حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہو ئے تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فرمایا…تمام کوششوں کا مرجع اقامت دین تھی … علوم دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا ) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، ارکانِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام ، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام ، مقد مات کا انفصال ، قاضیوں کا تقرر ، امر با لمعروف ( عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا ) و نہی عن المنکر ( بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں ان جملہ امور کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس ِ نفیس فر ما یا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر ہوئے وعظ و نصیحت فر مائی ، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا ،جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فر مائی ، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے ، وصول زکوٰۃ کے واسطے عامل ما مور کیے ، وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا ،رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا ، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا ،* *غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات کے فیصلے کیے گئے قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا۔وغیرہ گویا خدائی احکامات کو نبوی منہج کے مطابق نافذ کرنے کا نام خلافت ہے ۔*
خاندان نبی کا خیال
: خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا بہت زیادہ خیال فرمایا ۔ ان کی تمام معاشی و معاشرتی ضروریات کو پورا کیا ۔یہ ایسی عظیم الشان حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام پر لکھی جانے والی تمام معتبر کتب اس بات پر گواہ ہیں ۔*
خلافت کے بعد پہلا خطبہ
امام ابن سعد نے طبقات اور امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شاندار فقید المثال خطبہ دیا :حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں ۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میر ے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلوائوں گا۔ اور جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔* *جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں ۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب میں خدا اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں اللہ تم پر رحم فرمائے اب نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔*
ریاستی ذمےداریاں
: تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ۔امن و آشتی ، عدل و انصاف ،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں ،معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔
نمایا کارنامے
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بے شمار کارنامے ایسے ہیں جن پر دنیا رہتی دنیا تک ناز کرے گی ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے ۔ ان میں #مدعیان_نبوت کا فتنہ سر فہرست ہے ۔یمن میں اسود #عنسی ، یمامہ میں #مسیلمہ کذاب ، جزیرہ میں #سجاح دختر حارث ، بنو اسد و بنو طی میں #طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعویٰ داغ دیے ۔ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کے لیے مصلحت اختیار کر لی جاتی ۔ بلکہ یہ تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے ۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبر نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلعہ قمع کیا۔*
مانعین زکاۃ
فتح مانعین زکاۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاک کو تھا آپ کو نہیں ۔* *آپ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبوی میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔* *اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتداء ہوئی ۔ عراق میں آپ نے سیدنا خالد بن ولید کے تحت لشکر روانہ کیا ۔ عراق کے بہت سے مضافات آپ نے فتح کیے ۔* *خورنق ، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا ۔ بوازیج ، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی ۔ اہل انبار سے کامیاب معرکہ لڑا گیا ، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا ، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے ، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے گئے ۔لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے ۔*
جمع قرآن
کی خدمت بھی آپ کے مبارک دور کی یادگار ہے ۔ قیامت کی صبح تک آنے والے ہرشخص پر آپ رضی اللہ عنہ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبر برابر کے شریک ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ تصوف یعنی سلوک و احسان کے سلسلہ نقشبندیہ میں آپ کی حیثیت بہت قابل قدر ہے ۔آپ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق ایک سوبیا لیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق سے مر وی ہیں ۔ جن کو امام جلال الدین سیو طی نے ”تاریخ الخلفاء ” میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ،اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاََمیراث جدہ، میراث جد ، تفسیر ِ کلالہ ، حد شرب خمر۔وغیرہ ۔*
ابوبکر کا آخری زمانہ
*ابو بکر کا بدن دبلا اورقدرے آگے کو جھکا ہوا تھا۔پہلووں میں گوشت کم تھا جس کی وجہ سے تہ بند نیچے لٹک آتا۔* *رنگ سفید، گال کمزور اور ڈاڑھی خشخشی تھی۔ پیشانی فراخ اور اونچی تھی، آنکھیں گہری اور روشن تھیں، بال گھنگریالے تھے۔ ابو بکر کی آواز دردناک تھی، وہ سنجیدہ اور کم گو تھے۔ بالوں کو مہندی اوروسمہ لگاتے جس سے ان کی ڈاڑھی گہری سرخ نظر آتی۔ یہ معمول انھوں نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعداپنایا،اس وقت نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں صرف ابو بکر ہی تھے جن کے بال کھچڑی تھے۔ اتنے لاغر و نحیف ابو بکرکو مشرکوں نے ابوالفصیل (ﷲ میاں کی گائے) کا نام دیا تھا۔ انھی کے کاندھوں پر بار خلافت پڑا تو وہ ابوالفحول (شیرنر) ثابت ہوئے۔ خالد بن ولید نے بھی جنگ ارتداد میں بعض مواقع پر نرم پالیسی اختیار کرنا چاہی، لیکن ابو بکر نے پورا قصاص لینے کی ہدایت کی۔ عمر نے منکرین زکوٰۃ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا تو بھی وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ ان کے لیے رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ملنے والی سند کافی ہے کہ ’’جسمانی طور پر کم زور اور ﷲ کے معاملے میں انتہائی طاقت ور۔‘‘ بوڑھے ہو کر وہ اور ضعیف ہوگئے، لیکن ان کی ہر فضیلت زیادہ توانا ہو گئی۔ابوبکر زمانۂ جاہلیت میں شعر کہتے تھے: اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا شعری اثاثہ وہ تین مرثیے ہیں جو انھوں نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر کہے۔*
*ابو بکر نے اصحاب رسول سے نرمی اور مروت کا رویہ اختیار کیا،صحابہ کو ابوبکر سے ایک ہی شکایت ہوئی کہ انھوں نے مال کی تقسیم میں السابقون الاولون،* *مردوں،عورتوں اور غلاموں میں کوئی امتیازنہ کیا ۔اس کی وجہ خلیفۂ اول کا اصول تھا کہ مال کی تقسیم میں مساوات ہی زریں اصول ہے، البتہ مراتب اور اجر وذخر دینا ﷲ کا کام ہے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ خلافت کے پہلے سال ابوبکر نے مال فے آزاد،غلام ،مرد، عورت سب میں برابر تقسیم کیا تو ہر ایک کے حصے ۱۰دینار آئے۔ اگلے برس یہ رقم دگنی ہو کر ۲۰ دینار ہو گئی۔ان کی پالیسی تھی کہ کبار صحابہ کو سرکاری مناصب کم سے کم دیے جائیں۔ اس کی ایک وجہ انھوں نے خود بیان کی کہ میں نہیں چاہتا ،ان(اہل بدر)کو دنیا میں ملوث کروں۔دوسرا سبب یہ تھاکہ وہ ان کواپنے پاس مدینہ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ انھیں مشوروں میں شامل رکھیں،کیونکہ جب معاذ بن جبل شام گئے تھے تو اہل مدینہ نے بڑا خلا محسوس کیا تھا، وہ ان سے فقہی ودینی مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔تب عمر نے انھیں روکنے کا مشورہ دیاتھا توابوبکر نے جواب دیا تھا: جو شخص جہاد کے ذریعے شہادت حاصل کرنا چاہتا ہو میں اس کو کیسے روک سکتا ہوں؟*
*سخت مشقت اور اعصاب شکن معمولات نے ابو بکرکی اجل کو دعوت دی۔کوئی اور انسان اس قدر بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا جو انھیں اپنے دور خلافت میں اٹھانا پڑا۔* *اگرچہ ایسی روایت بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان کو دیر سے اثر کرنے والا زہر ملا کرخزیرہ (گوشت جو پانی اور مسالے ڈال کر رات بھر پکایا گیا ہو)کھلا دیا تھا جس سے ان کی وفات ہوئی ۔ عتاب بن اسید نے بھی یہ کھانا کھایا تھا،انھوں نے اسی روز مکہ میں انتقال کیا۔ جب ابو بکر کی وفات ہوئی۔ حارث بن کلدہ طبیب تھا،اس نے چند لقمے لے کر کھانا چھوڑ دیا تھا، اس لیے ان کی جان بچ گئی۔ زہری کا کہنا ہے وہ بھی بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ زہر خورانی کی روایت قوی نہیں، اس لیے اسے نہیں میرے بدن پر ہیں دھو لی جائیں اور ایک کپڑا نیا لے لیا جائے۔ عائشہ نے کہا کہ ہم تنگ دست نہیں کہ نیا کپڑا نہ لے سکیں۔جواب فرمایا: نئے کپڑوں کی زندہ لوگوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،کفن تو لہو اور پیپ کے واسطے ہے ۔عائشہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ایک زعفران لگا ہوا کپڑا جو انھوں نے پہن رکھا تھا اور دو نئے کپڑوں کاکفن دینے کا ذکر ہے۔ ابوبکر نے اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کو غسل دینے کی ہدایت کی اور کہا اگر وہ چاہیں تو ہمارے بیٹے عبدالرحمان سے مدد لے لیں۔ ابوبکر ان وصیتوں میں مصروف تھے کہ عراق سے مثنیٰ آئے اور عراق کمک بھیجنے کی درخواست کی۔انھوں نے اپنے جانشین عمر کو وہاں فوج بھیجنے کی وصیت کی اور فرمایا: میری موت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات سے غافل نہ ہو جانا۔انتقال کے دن پوچھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس روز رحلت فرمائی تھی ؟ لوگوں نے بتایا: پیر کے دن ۔کہا: مجھے امید ہے،میری موت بھی آج ہی ہوگی۔انھوں نے وصیت کی کہ میری قبر آں حضرت کی قبر کے ساتھ بنائی جائے۔*
سیدنا صدیق کا وقت رحلت
* *سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر کی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے اس لیے سیدنا عمر کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرام آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے سب سے زیادہ خبر گیری سیدنا عثمان کرتے تھے۔* _(اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لمحمود المصری)_ *جب انکی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا:* *قَدْ رَآنِي فَقَالَ: إِنِّي فَعَّالٌ لِمَا أُرِيدُ* _ترتیب و تہذیب البدیہ والنہایہ للدکتور السلمی،ص 33_ *طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتاہوں۔* *سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سیدنا ابو بکر نے فرمایا:* *انظروا ماذا زاد في مالي منذ دخلت في الإمارة فابعثوا به إلى الخليفة بعدي* _صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1_
*جب سےمیں خلیفہ بنا ہوں اس دوران جتنا مال بڑھا ہے وہ میرے بعد والے خلیفہ کو پہنچا دینا۔* *ہم نے جب ان کا مال چیک کیا تو ایک نوبی غلام تھا مصر کے جنوب میں سوڈان کے شہر نوبہ میں ایک قوم آباد تھی یہ غلام انہیں میں سے تھا اور یہ خلیفہ کے بچے کھلاتا تھا۔* *اس کے علاوہ ایک اونٹ تھا جو ان کے باغ کو سیراب کرتا تھا ہم نے یہ دونوں چیزیں سیدنا عمر کی خدمت میں بھیج دیں تو وہ رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکر پر اللہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔* _(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1)_ *(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)*
وصال پرملال
۲۲جمادی الثانی۱۳ھ مطابق۲۳/اگست ۶۳۴ء بروز پیر ،مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ سال کی عمر میں آپکا وصال ہوا۔آپ کی مدت خلافت دو سال ،تین ماہ اور دس دن تھی۔* *بوقت وصال حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ رتعالٰی عنہ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کو میرے حبیبِ ﷺکے روضۂ اَنور کے دَر کے سامنے لاکر رکھ دینا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہہ کر عرض کرنا!”یارسولَ اللہ ﷺ ابو بکر آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہے۔ اگردروازہ خود بخود کھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ مسلمانوں کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کر دینا۔ جنازۂ مبارکہ کو حسبِ وَصیت جب روضۂ اَقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا: اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ!ابوبکر حاضِر ہے۔ یہ عرض کرتے ہی دروازے کا تالا خود بخودکھل گیا اور آواز آنے لگی: اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ فَاِنَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌ یعنی محبوب کو محبوب سے مِلادو کہ محبوب کو محبوب کا اِشتِیاق ہے۔* _(تفسیر کبیر ج۱۰ص۱۶۷داراحیاء التراث العربی بیروت)_
*آخر میں ایک اہم الزام کا جواب دینا ضروری ہے جو ابوبکر پر لگایا جاتا ہے۔ کیا ابو بکر نے سیدہ فاطمۃ الزہرا کو میراث سے اور حضرت علی کو خلافت سے محروم کردیاتھا؟ جس طرح فاطمہ رضی ﷲ عنہاپیغمبر علیہ السلام کی وارث تھیں اسی طرح عائشہ رضی ﷲ عنہا بھی آپ کی وراثت میں حصہ رکھتی تھیں۔ ابوبکر نے دونوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا، اس لیے کہ شریعت اسلامی میں انبیا کی وراثت جائز نہیں۔ یعقوبی کا بیان ہے: جب سیدہ عائشہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو اپنے باپ کی وراثت حاصل کر سکتے ہیں اور میں نہیں کر سکتی تو ابوبکر زار و قطار رونے لگے گویا اس اعتراض پر محض ہمدردی ہی کی جا سکتی تھی۔* *خلافت علی کے بارے میں اگر کوئی واضح ارشاد نبوی ابوبکر کے سامنے آتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتے اور فرمان رسالت پر بے چون و چرا عمل کرتے، اس لیے کہ ان کی پوری زندگی امتثال امر سے عبارت ہے۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ پرعلی مرتضیٰ کا بیعت کر لینا ثابت کرتا ہے کہ وہ وصی رسول نہ تھے۔* _مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ ابن خلدون، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الیعقوبی، الصدیق ابوبکر (محمد حسین ہیکل)، عبقرےۃ الصدیق (عباس محمود العقاد)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)، سیرت الصدیق (حبیب الرحمان شروانی
آخری بات اور اسپیشل تحفہ
سب کتب ایپ کو ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں اور جان سکتے ہیں تمام باتیں کیوں کہ یہ ایسا پاورفل ایپ ہے جہاں من چاہی کتاب فری میں بالکل فری میں بغیر ڈاؤنلوڈ کیے پڑھ سکتے ہیں