یہ اگست ماہ آزادی ہے جس کی وجہ سے آزادی پر اشعار کا ایسا حسین مجموعہ پیش خدمت ہے جن کے مطالعے سے سینے میں آگ لگےگی اور من کو خوشی ملےگی دھیان رہے یہ 10 دن کی محنت سے جمع کی گئی ہیں اسی لیے اس کو شیئر کرنا بھی نہ بھولیں
آزادی پر اشعار
یوم آزادی پر شاعری ، اشعار چودہ اگست کے حوالے سے شاعری۔۔آزادی مبارک۔۔۔۔۔
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
محسن
۔۔۔
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے
پروین شاکر
۔۔۔۔۔
زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی
اے وطن تیری استقامت تک
ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک
۔۔۔۔
اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا
دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا
۔۔۔۔
ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں
اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم
۔۔۔۔۔۔
وطن کی پاسبانی جان و ایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں
یــوں دی ہمیـں آزادی کــہ دنیــا ہــوئـی ہـے حیــران
اے قـــائـــد اعظــم تیــرا احســـان ہـے تیـــرا احســان
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
لال چند فلک
وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
مزید آزادی پر اشعار
آزادی پر اشعار کے کچھ مزید نمونے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اس کے تمام اشعار کو یکجا پڑھ سکتے ہیں
علامہ اقبال
آزادی پر اشعار کا مجموعہ
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
فراق گورکھپوری
جعفر ملیح آبادی
اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان
اندھیرے ہار گئے زندہ باد ہندوستان
جاوید اختر
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
چکبست برج نرائن
موضوع : یوم جمہوریہ پر شاعری
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے
احمق پھپھوندوی
موضوع : انقلاب
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
نامعلوم
اشعار آزادی مزید دل چھونے والی
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خا ک سے ہے
پروین شاکر
۔۔۔۔۔
زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی
اے وطن تیری استقامت تک
ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک
۔۔۔۔
اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا
دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا
۔۔۔۔
ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں
اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم
۔۔۔۔۔۔
وطن کی پاسبانی جان و ایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں
آشیاں ہمارا
گہوارۂ ِ اماں ہو ہر آشیاں ہمارا
یا رب ! رہیے سلامت یہ گلستاں ہمارا
ہر صبح ، مُشکبو ہو ، ہر شام ، عطر آگیں
ہر گز نہ کچھ بگاڑے دورِ خزاں ہمارا
علم و عمل کی طلعت سے مالا مال کردے
ہر سو چراغِ ہستی ہو ضو فشاں ہمارا
انصاف کی ترازو سیدھی رکھیں سدا ہم
توفیق ِ عدل پائے ہر حکمراں ہمارا
سینچا ھے اِس چمن کو اسلاف نے لہو سے
اِس کی رگوں میں شامل ، خونِ جواں ہمارا
تاریخِ حُرّیت کے اوراق کوئی دیکھے
ہر سو چمک رہا ہے نام و نشاں ہمارا
خاکِ وطن ، ہمارے خاکی وجود میں ھے
ہند و ستا ن کے ہم ، ہند و ستا ں ہمارا
ہم جو ہیں خیرِ امّت پیچھے نہیں کسی سے
ہر کارواں سے آگے ھے کارواں ہمارا
کردار کے قلم سے لکھنا ہے آج ہم کو
یہ زندگی ہماری ھے امتحاں ہمارا
آئے ہیں دور سے ہم ، جانا ھے دور ہم کو
دنیا میں ہیں مسافر ، خلد آشیاں ہمارا
اسلام کیا ھے دینِ امن و سلامتی ھے
ہم اُس کے پاسباں ہیں ، وہ پاسباں ہمارا
اُن پر درود جن کی رحمت ہیے عام سب پر
اُن پر سلام جن سے آرامِ جاں ہمارا
ایمان والے ہیں ہم کیا پوچھتے ہو سیفی
یہ بھی جہاں ہمارا ، وہ بھی جہاں ہمارا